ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

فجر یا عصر کے بعد سونے کا حکم

2063

تاریخ اشاعت : 08-10-2014

مشاہدات : 34177

سوال

کیا فجر کے بعد سونے کے بارے میں کوئی حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فجر کے بعد سونے کی ممانعت کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے، اس لئے یہ عمل اصل پر قائم رہے گا، اور وہ ہے:اباحت، [یعنی فجر کے بعد سونے میں کوئی حرج نہیں]

لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو سورج طلوع ہونے تک اپنی نماز کی جگہ ہی بیٹھے رہتے تھے، جیسے کہ صحیح مسلم : (1/463) حدیث نمبر: (670) میں سماک بن حرب سے مروی ہے کہ: "میں نے جابر بن سمرہ سے کہا: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے؟" انہوں نے کہا: "ہاں! بہت زیادہ، آپ فجر کی نماز جس جگہ پڑھتے تھے اسی جگہ سورج طلوع ہونے تک بیٹھے رہتے، چنانچہ جب سورج طلوع ہو جاتا تو کھڑے ہوجاتے؛ آپکے ساتھی باتیں کرتے کرتے جاہلیت کے زمانے کی باتیں بھی کرتے، تو صحابہ کرام سن کر ہنستے، اور آپ [صرف]مسکر ا دیتے"

ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے دعا مانگی تھی کہ میری امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے، جیسے کہ صخر الغامدی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یا اللہ! میری امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے)، راوی کہتے ہیں کہ:جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹا بڑا لشکر ارسال کرنا ہوتا تو صبح کے وقت ہی بھیجتے تھے، اور صخر تاجر صحابی تھے، آپ اپنے تجارتی قافلے کو صبح کے وقت بھیجا کرتے تھے، تو آپ کو خوب مال و دولت نصیب ہوا۔

اس روایت کو ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ نے ایسی سند کیساتھ روایت کیا ہے جس میں ایک مجہول راوی ہے، لیکن اسکی تقویت کیلئے علی، ابن عمر، ابن مسعود، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ کی روایات بھی موجود ہیں۔

اسی بنا پر کچھ سلف صالحین نے فجر کی نماز کے بعد سونے کو مکروہ سمجھا ہے، چنانچہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "مصنف": (5/222) حدیث نمبر: (25442) میں عروہ بن زبیر سے صحیح سند کیساتھ روایت کرتے ہیں کہ : "زبیر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو صبح کے وقت سونے سے منع کیا کرتے تھے"

اور عروہ کہتے ہیں کہ:"میں جس وقت کسی کے بارے میں یہ سنتا ہوں کہ وہ صبح کے وقت سوتا ہے تو میری اس میں دلچسپی ختم ہوجاتی ہے"

خلاصہ یہ ہے کہ:

انسان کیلئے بہتر یہی ہے کہ اس وقت کو دنیاوی یا اخروی فائدے کیلئے استعمال کرے، اور اگر اپنے کام کاج میں بھر پور توجہ حاصل کرنے کیلئے کوئی آرام کر لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خصوصاً اگر اسے دن میں سونے کا وقت ہی اسی وقت ملتا ہو، چنانچہ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "مصنف": (5/223) حدیث نمبر: (25454) میں ابو یزید مدینی سے روایت کیا ہے کہ : "عمر رضی اللہ عنہ صہیب کے پاس صبح کےوقت آئے، تو صہیب سوئے ہوئے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے انکے بیدار ہونے تک بیٹھ کر انتطار کیا، تو صہیب کہنے لگے: امیر المؤمنین ! بیٹھے ہوئے ہیں، اور صہیب سویا ہوا ہے!!" تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "مجھے اچھا نہیں لگا کہ آپکو میٹھی نیند سے جگا دوں"

جبکہ عصر کے بعد سونا بھی جائز اور مباح ہے، اس وقت میں سونے کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی چیز ثابت نہیں ہے۔

اور اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب حدیث کہ آپ نے فرمایا: (جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اسکی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے) یہ حدیث باطل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، دیکھیں: " سلسۃ ضعیفۃ، حدیث نمبر:( 39)

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد