جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

خاوند نے بیوی کیساتھ خوش طبعی کی تو بیوی نے اسکے لئے جماع تک کا موقع فراہم کیا تا کہ اُسی کا روزہ ٹوٹے اور گناہگار بھی ہو! تو کیا ایسی صورت میں بیوی کا روزہ بھی ٹوٹ جائے گا؟

سوال

سوال: ایک عورت کیساتھ اسکے خاوند نے رمضان کے مہینے میں فجر کے بعد خوش طبعی شروع کردی، عورت نے خاوند سے کہا: "مجھے مت چھیڑو، کہیں روزہ خراب نہ ہو جائے" لیکن اسکے باوجود خاوند اپنے کام میں جاری رہا، [تنگ آکر] خاوند کی طرف اپنی کمر کرکے اُسے اُسکے حال پر چھوڑ دیا، اور دل میں سوچنے لگی: "اس نے جو کرنا ہے کر لے، میرا روزہ ٹوٹ گیا تو اسے ہی گناہ ملے گا" لیکن جس وقت دل میں یہ بات اس نے سوچی، تو خاوند نے بھی کچھ نہیں کیا۔
عورت نے جب مذکورہ بالا بات سوچی تو اسکا مطلب صرف یہ تھا کہ ، گناہ خاوند کو ہی ہوگا، یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ خود روزہ توڑ دے، یا کھا ،پی لے؛ اب مجھے ڈر ہے کہ جو کچھ میں نے [دل میں ]کہا اسکی وجہ سے میرا روزہ نہ ٹوٹ گیا ہو، تو کیا واقعی اسکی وجہ سے میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے یا وہ صرف زبانی کلامی بات تھی؟
مذکورہ بات کی وجہ سے روزہ ٹوٹ گیا ہے یا باقی ہے ، ہر دو کے بارے میں تفصیل سے جواب چاہتی ہوں۔
اسی طرح میں اپنی حالت کے بارے میں یہ بھی وضاحت چاہتی ہوں کہ مجھے روزے کی نیت یا روزے کے درست ہونے کے متعلق وسوسے آتے ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جو شخص روزے کی حالت میں پختہ عزم و ارادے اور بغیر تردد کے ساتھ روزہ توڑنے کی نیت کر لے تو صحیح موقف کے مطابق اسکا روزہ ٹوٹ جائے گا، چاہے اپنی نیت کو بعد میں تبدیل ہی کیوں نہ کرلے، اسے اس دن کا روزہ دوبارہ لازمی رکھنا ہوگا۔

ہاں اگر روزہ توڑنے کے بارے میں متردد تھا، یا کسی معاملے کے ساتھ روزہ توڑنے کو معلق رکھا ، مثلا: [یہ کہے] اگر مجھے کھانے پینے کی کوئی چیز ملی تو میں روزہ کھول لوں گا، لیکن اسے کوئی کھانے پینے کی چیز نہیں ملتی، تو اسکا روزہ درست ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

"ايك شخص رمضان میں روزے کیساتھ سفر پر ہے ، اس نے روزہ كھولنے كى نيت كر لى، ليكن اسے روزہ كھولنے كےليےكوئى چيز نہ ملى، تو اس نے نيت تبديل كر لى، اور روزہ پورا كر ليا، تو كيا ا سكا روزہ صحيح ہے؟

تو انہوں نے جواب ديا:

" ا سكا روزہ صحيح نہيں، اور اسے اسکی قضا دینا ہوگی؛ كيونكہ جب اس نے روزہ كھولنے كى نيت كى تھى تو اس كا روزہ اسی وقت كھل گيا تھا۔

ليكن اگر وہ يہ كہتا كہ: "اگر مجھے پانى مل گيا تو ميں پى لونگا وگرنہ ميں روزہ كى حالت ميں ہى رہونگا" اور اسے پانى نہ ملا ، تو اس كا روزہ صحيح ہے؛ كيونكہ اس نے اپنى نيت نہيں توڑى، کیونکہ اس نے روزہ كھولنے كو كسى كھانے پينے والى چيز كى موجودگى پر معلق كيا تھا، اور وہ چيز ملى ہى نہيں، تو اسکی پہلی نیت ہی برقرار رہی"انتہی

"لقاء الباب المفتوح" (29/20)

ظاہر یہی ہوتا ہے کہ جو آپ سے ہوا ہے وہ دوسری قسم سے متعلق ہے، یعنی : آپ نے اپنا روزہ توڑنے کو خاوند کے مزید آگے بڑھنے پر معلق کیا تھا، جبکہ خاوند آگے نہیں بڑھا، کیونکہ روزہ توڑنے کی نیت اور چیز ہے، جبکہ نیت کو کسی غیر موجودہ چیز سے معلق کرنا الگ چیز ہے، اور دونوں کا حکم الگ الگ ہے۔

چنانچہ مذکورہ تفصیل کے بعد: آپکا روزہ درست ہے، آپ پر اسکی قضا لازم نہیں ہے۔

اور اگر آپ نے روزہ توڑنے کی نیت کرلی تھی، یا اب آپکے ذہن میں غالب گمان یہی ہے کہ آپکی ایسی ہی نیت تھی، تو اس صورت میں آپکا روزہ ٹوٹ چکا ہے، اور اس دن کی قضا آپکو دینا ہوگی۔

چنانچہ اگر آپکے دل میں اسکے متعلق کوئی کھٹکا لگا رہے، اور روزوں کے بارے میں محتاط اقدام کرتے ہوئے اس دن کے روزے کی قضا دے دو تو ان شاء اللہ یہ بہتر ہوگا۔

آپ سوال نمبر (95766) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

اور اگر نیت یا [کسی بھی ]عبادت کے درست ہونے کے متعلق وسوسے بار بار آتے ہوں، تو ایسے دن کا روزہ دوبارہ مت رکھیں، اور یقین کر لیں کہ آپکا روزہ درست تھا، آپ وسوسوں سے جتنا ہوسکے دور رہیں، کیونکہ یہ ایک بڑی خرابی کا باعث بنتا ہے، اور اس وقت تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا جب تک انسان کی عبادت اور مکمل دین غارت نہ ہوجائے۔

اور اس سے پہلے بھی ویب سائٹ پر متعدد مقامات میں وسوسوں کے پیچھے لگنے سے منع کیا گیا ہے۔

دوم:

دوران روزہ مرد کیلئے اپنی بیوی کیساتھ مباشرت، بوس وکنار وغیرہ جائز ہے، بشرطیکہ کہ جماع یا منی خارج کرنے سے اپنے آپ پر کنٹرول رکھتا ہو۔

اس کیلئے آپ سوال نمبر : (49614) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

کسی خاتون کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنے خاوند سے حرام کام کا ارتکاب کروانے کی کوشش کرے، یا خاوند کے حرام کاموں پر راضی رہے؛ بلکہ بیوی پر ضروری ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اسے روکے اور منع کرے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو کوئی بھی تم میں سے برائی دیکھے تو اپنے ہاتھ سے روکے، اور اسکی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے، اور اگر اسکی بھی طاقت نہیں رکھتا تو دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کی کمزور ترین حالت ہے)مسلم(49)

چنانچہ آپکی جانب سے خاوند کو حرام کام کرنے کیلئے کھلی چھوٹ دینا، تا کہ اسے رحمت بھرے مہینے میں اللہ کے عذاب اور گناہ کا سامنا کرنا پڑے، یہ بھی حرام ہے، اور اللہ کی نافرمانی میں ڈالنے کی کوشش ہے، یا [کم از کم] اس پر [اظہار ]رضا مندی ہے؛ چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جو شخص کسی کو رمضان میں کھاتے پیتے دیکھے اور دیکھنے والے کو علم ہو کہ وہ روزے دار ہے تو اس پر روزے دار کو کھانے پینے سے روکنا واجب ہے، کیونکہ وہ تو بھول کر کھا رہا ہے، اور اسی بنا پر اسے معذور سمجھا جائے گا، لیکن دیکھنے والا شخص تو نہیں بھولا، [اس لئے دیکھنے والے پر روکنا واجب ہے]کیونکہ ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے: (نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو)المائدہ/2"انتہی

"اللقاء الشهری" (70/ 44) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

لہذا اگر ہر کسی پر روزے دار [کے روزہ کی حفاظت ]واجب ہے؛ تو خاوند کے روزے کی حفاظت کتنی واجب ہوگی؟ یقینا خاوند کے بارے میں مزید تاکید ہوگی، اور خاوند کا حق آپ پر زیادہ بنتا ہے۔

اس لئے آپ توبہ استغفار کریں، اور آئندہ اس قسم کی غلطی کا ارتکاب مت کرنا، بلکہ آپ کو اپنے خاوند کیلئے دین و دنیا کے ہر معاملے میں بہترین مدد گار ثابت ہونا چاہئے، چنانچہ جب کبھی آپ اپنے خاوند کو کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کرتے دیکھیں تو آپ اسے روکیں، اور اللہ کی یاد دلائیں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب