الحمد للہ.
یہ جاننا ضروری ہے کہ خاوند اوربیوی کے مابین جس وجہ سے مشکلات اورپریشانیاں پیدا ہوتی ہیں حتی کہ وہ اس کی وجہ سے بہت ہی بری حالت تک پہنچ جاتےہيں وہ ایک دوسرے کے حقوق کی پہچان نہ کرنا ہے کہ خاوند اوربیوی ایک دوسرے کے حقوق کی پہچان نہیں کرتے اورپھر اس کی وجہ سے ان کی ادائيگي بھی نہیں ہوتی ۔
اسلام نے ان حقوق کوخاوند اوربیوی دونوں پر لازم کیا ہے اوراس کی بار بار تاکید کی ہے اورایک دوسرے کے حقوق کی ادائيگي پر ابھارا بھی ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ ، ہاں مردوں کوعورتوں پر فضیلت اوردرجہ حاصل ہے البقرۃ ( 228 ) ۔
تویہ اس بات کی نص ہے کہ خاوند اوربیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق واجب ہیں جو کہ ان دونوں کوادا کرنے ضروری ہیں ، تو اس طرح دونوں کے مابین ہر ناحیہ سے توازن قائم رکھا گيا ہےتا کہ ان کی ازدواجی زندگي میں استقرار پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوسکے ، اوراس کی معاملات وامور میں استقامت پیدا ہو ۔
عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما اس آیت کےبارہ میں کہتے ہيں :
یعنی ان عورتوں کے خاوند پریہ ضروری ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے طریقے سے صحبت رکھیں اوراسی طرح ان بیویوں پر بھی ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں اوراپنے خاوندوں کی اس میں اطاعت کریں جواللہ تعالی نے ان پر واجب کیا ہے ۔
اورابن زيد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
تم ان عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی کا ڈر اورخوف اختیار کرو اوراسی طرح ان عورتوں پر بھی ہے کہ وہ بھی تمہارے بارہ میں اللہ تعالی کا ڈر اورخوف اختیار کریں ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
یہ آیت مکمل اورسارے حقوق زوجیت کو عام ہے ، ان حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ :
غلطیوں اوربے ہودہ باتوں سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اوردرگزر کیا جائے ، اورخاص کر جن اقوال اوراعمال میں برائي کا قصد نہ ہو ۔
انس بن مالک رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( سارے کے سارے بنوآدم خطاکار ہیں اورسب سے بہتر خطا کار وہ ہے جوتوبہ کرلے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 2510 ) صحیح الجامع ( 4 /171 ) ۔
تواس لیے خاوند اوربیوی دونوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھی کوبرداشت کرے اورتحمل کا مظاہرہ کرے اس لیے کہ ہرانسان غلطی کرسکتا ہے ، توپھر لوگوں میں سب سے زيادہ احتمال کا حقدارتو وہ ہے جس سے زيادہ میل جول اورمعاشرت ہو ، تو اس لیے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ دوسرے سے اسی طرح کا مقابلہ نہ کرے جس طرح کہ ایک کرتا ہے ۔
یعنی اگر خاوند اوربیوی دونوں میں سے ایک دیکھتا ہے کہ دوسرا غصہ میں ہے توایک کو چاہیے کہ وہ اپنے غصہ پر قابو پائے اورغصہ پی جائے اوراسی وقت اس جیسا ہی جواب نہ دے ، بلکہ اسے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔
اسی لیے ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیوی کوکہا تھا :
اگرتم مجھے غصہ میں دیکھو تو مجھے راضی کرو ، اورجب میں تجھے غصہ میں دیکھوں تومیں تجھے راضي کرونگا ، وگرنہ ہم ایک دوسرے کے ساتھی نہیں بنتے ۔
امام اہل سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی عنہ نے عباسۃ بنت الفضل جوکہ ان کے بیٹے صالح کی والدہ ہیں سے شادی کی تواس کے حق میں یہ بات کہا کرتے تھے :
ام صالح نے میرے ساتھ بیس برس گزارے ، اوراس مدت میں ہمارے مابین کبھی بھی ایک کلمہ کا اختلاف نہيں ہوا ۔
خاوند اوربیوی کے مابین سب سے عظيم اوربڑا حق تو یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کواللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کی نصیحت کرتے رہیں ، حدیث شریف میں ہے کہ کچھ صحابہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اورسوال کرنے لگے :
اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگرہمیں یہ پتہ چلے کہ سب سے بہتر اور اچھا مال کونسا ہے تو ہم اسے حاصل کریں ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا :
( سب سے افضل مال ذکر کرنے والی زبان ، اورشکر کرنے والا دل ، اورمومنہ بیوی جوایمان پر اس کا تعاون کرے ) مسند احمد ( 5 / 278 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 3039 ) صحیح الجامع حدیث نمبر ( 5231 ) ۔
پھر یہ بھی مرد کے لائق نہيں کہ جب وہ اپنی بیوی سے کوئي ناپسندیدہ چيز دیکھے تواس پر غصہ اور ناراض ہو ، اس لیے کہ اگر وہ اس سے کوئی ناپسند چيز دیکھتا ہے تو کسی دوسری چيز پر وہ اس سے راضي بھی ہوگا تواس طرح وہ اس کے مقابلہ میں ہوگی ، اوراس کا ذکر تو حدیث میں بھی ملتا ہے :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( مومن مرد مومنہ عورت سے ناراض نہيں ہوتا اوراس سے بغض نہیں رکھتا ، اگر ایک چيز اس نے اس میں بری دیکھی ہے توکسی اورچيز سے وہ خوش ہوجائے گا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 36 ) ۔
سمرۃ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( بلاشبہ عورت پسلی سے پیدا کی گئي ہے اوراگر آپ پسلی کوسیدھا کرنے کی کوشش کرینگے تو اسے توڑ بیٹھیں گے ۔۔۔۔۔ ) مسند احمد ( 5 / 8 ) صحیح ابن حبان حدیث نمبر ( 1308 ) صحیح الجامع ( 2 / 163 ) ۔
ازدواجی زندگی کوصاف شفاف اوراچھی گزارنے میں سب سے زيادہ مددگاراورعظيم چيز حسن خلق ہے ، اور اسی لیے اسلام نے حسن خلق کی شان اورقدربلند کی ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق اورمعاملات میں حد کمال کی انتھاء کوپہنچے ہوئے تھے اوران میں یہ بدرجہ اتم موجود تھا ۔
ابودرداء رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( میزان میں حسن خلق سے بھاري کوئي چيز نہیں ہوگی ، اورحسن اخلاق کا مالک شخص صوم وصلاۃ والے شخص کے درجہ کوپہنچے گا ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 2003 ) سنن ابو داود حدیث نمبر ( 4799 ) ۔
اور ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو ، اورتم میں سب سے زيادہ بہتر اورچھا وہ ہے جواپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو ) سنن ترمذی ( 1/ 217 ) مسند احمد ( 2 / 250 ) دیکھیں السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی حدیث نمبر ( 284 ) ۔
اور حسن معاشرت میں یہ بھی شامل ہے کہ : اللہ تعالی کے حقوق کے علاوہ کسی اورچیز میں غصہ کوپیا جائے اورہر چھوٹے بڑے معاملے کے پیچھے نہ پڑا جائے ہر چھوٹی بڑی چيز میں ڈانٹ ڈپٹ نہ کی جائے ، اللہ تعالی نے بھی ہماری راہنمائي کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا ہے :
اوران کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے طریقے سے بود وباش اختیار کرو ، اوراگرتم انہيں ناپسند کرو تو ہوسکتا ہے کہ تم کسی چيز کوناپسند کرو اوراللہ تعالی اس میں خيرکثیر فرمادے ۔
تواگر عورت اپنے خاوند کی نافرمانی کرے اوراس کی اطاعت نہ کرتی ہو توخاوند کویہ حق حاصل ہے کہ واسےشرعی ادب سکھائے ، اللہ تعالی نے اسی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے :
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نےایک کو دوسرے پر فضيلت عطا فرمائي ہے ،اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہيں ، پس نیک و صالح اورفرمانبردار عورتیں خاوندکی عدم موجودگي میں اللہ تعالی کی حفاظت کے ساتھ نگہداشت کرنے والیاں ہیں ، اورتمہیں جن عورتوں کی نافرمانی اوربددماغی کا ڈر ہوانہیں نصیحت کرو ، اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو ، اورانہیں مار کی سزا دو ، پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرلیں تو ان پر کوئي راستہ تلاش نہ کرو ، بے شک اللہ تعالی بڑی بلندی اور بڑائي والا ہے النساء ( 34 ) ۔
تواس آیت سے پتہ چلا کہ خاوند کواپنی کے بیوی کے بارہ میں یہ حق حاصل ہے کہ جب وہ نافرمانی کرے تووہ اسے شرعی ادب سکھائے جس میں اسے اسلوب اورطریقہ کار کا خیال رکھنا ہوگا اوربتدریج مارکی سزا تک جائے گا جس میں کچھ شروط بھی پائي جاتی ہیں ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اس جگہ کے علاوہ کسی بھی چيزکے بارہ میں مار کی سزاکا صراحتا حکم نہیں دیا اوریہاں بھی کچھ حدود وقیود کے ساتھ ذکرکیا ہے ۔
اورخاوندوں کی نافرمانی کرنے کوکبیرہ گناہ کے برابر قرار دیا ہے ۔۔۔
اورآیت میں نشوز کا معنی نافرمانی ہے ، یعنی جن عورتوں کی نافرمانی اورسرکشی کا تمہیں ڈر ہے کہ وہ اللہ تعالی کی جانب سے خاوند کی واجب کردہ اطاعت نہیں کریں گی تواللہ تعالی نے انہيں ادب سکھانے کے لیے کچھ درجات مقرر کیے ہیں :
سب سے پہلے تو انہيں علیحدگي اورمار کی بجائے وعظ ونصیحت کی جائے گی ، اورعورت کویہ بتایا جائے گا کہ اللہ تعالی نے اس پر حسن صحبت اورحسن معاشرت واجب کی ہے کہ وہ خاوند کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے ، اس میں بھی رویہ اورلہجہ نرم رکھا جائے گا لیکن اگر یہ فائدہ نہ دے توپھر اس کے بعد والے قدم کی طرف جایا جائے گا ۔
دوسرا قدم :
اس کے بعد دوسرا قدم یہ ہے کہ اسے بستر سے علیحدہ کردیا جائے اوراس کے ساتھ نہ سویا جائے ، یا پھر اس کی طرف سے منہ دوسری طرف کرکے سویا جائے ، لیکن چارمہینہ سے زيادہ علیحدہ رہنا صحیح نہیں ، کیونکہ یہی وہ مدت ہے جوایلاء کے لیے رکھی گئي ہے ، اوراس میں یہ بھی ضروری ہے کہ علیحدگي سے مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اسے ادب سکھانا اوراس کی اصلاح کرنی ہے نہ کہ اس سے انتقام لیناہے ۔
تیسرا قدم :
سب سے آخری قدم یہ ہے کہ اسے مارکی سزا دی جائے لیکن یہ مار شدید قسم کی اورزخمی کرنے والی نہيں ہونی چاہیے اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورانہیں مار کی سزا دو
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
اسے بستر سے الگ کردو اگر تووہ بات مانتی ہوئی اطاعت کرلے توٹھیک وگرنہ اللہ تعالی نے آّپ کومارکی سزا دینے کی اجازت دی ہے جوکہ شدید نہ ہو اورزخمی نہ کرے ، اورخاوند کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ مار صرف ادب سکھانے اوراسے ڈانٹنے کے لیے ہے اس کے علاوہ کوئي اورمقصد نہيں ، تواس میں اسے تخفیف اورہلکی مارکا خیال کرنا چاہیے یعنی ہلکی چپت وغیرہ ۔
عطاء رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
میں نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے کہا کہ ضرب غیر مبرح کیا ہے ؟ یعنی کونسی مار ہے جو سخت نہيں ؟
توان کا جواب تھا : مسواک وغیرہ سے مارنا ۔
اورحدیث میں بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کوعورتوں کے بارہ میں وصیت کرتے ہوئے فرمایا ہے :
(عورتوں کے متعلق اللہ تعالی کا ڈر اورخوف اختیار کرو بلاشبہ تم نے انہیں اللہ تعالی کی امانت کے ساتھ حاصل کیا ہے اوراوران کی شرمگاہوں کو اللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ جسے تم ناپسند سمجھتے ہو وہ تمہارے گھرمیں داخل نہ ہو ، اوراگر وہ ایسا کریں توانہیں مار کی سزا دولیکن شدید اورسخت نہ مارو ) حدیث صحیح ہے ۔
خاوند پر واجب اورضروری ہے کہ وہ نازک جگہوں پر مارنے سے پرہیز کرے مثلا سر ، اورپیٹ وغیرہ ، اوراسی طرح چہرے پر بھی نہ مارے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے سے عمومی طورپرمنع فرمایا ہے ۔
اور معاویہ بن حیدۃ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :
اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر کسی ایک کی بیوی کا حق ہم پر کیا ہے ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جب تم خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ ، اورجب خود لباس پہنو تو اسے بھی پہناؤ ، اوراس کے چہرے کو بدصورت نہ کہو اورچہرے پر نہ مارو ۔
سنن ابوداود ( 2 / 244 ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 1850 ) مسند احمد ( 4 / 446 ) ۔
اورجب وہ نافرمانی ختم کردے اوراس سے باز آجائے توخاوند کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے سزا دینے میں بہانے تلاش کرتا رہے اورزيادتی کرے یا پھر اسے باتوں اورکسی فعل کی سزا دے جیسا کہ اللہ تعالی نے بھی فرمایا ہے :
اگر تووہ تمہاری اطاعت کرنے لگيں توپھر ان پر کوئي راستہ نہ تلاش کرتے پھرو ۔
اورآپ کی مشکل کے بارہ میں اگرچہ اس کی تفصیل کا ہمیں علم نہيں کہ آپ نے اپنی بیوی کوکیوں مارا ہے ، اور اس کی وجہ سے آّپ کی بیوی اوراس کی بیٹی نے آپ پر زيادتی کی ہم یہ گزارش کریں گے کہ :
ہم نے تو اس سے یہ سمجھا ہے کہ آپ نے ہی مشکل پیدا کرنے کی ابتدا کی اورمارنے کی ابتدا بھی کی اورپھر اسے ہنس کر غصہ دلایا ، اورپھر اس کے بعد اس اوراس کی بیٹی کی جانب سے غلطیاں ہونا شروع ہوئيں ۔
ہم آپ کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ آپ اپنی بیوی کوواپس لائيں اور دونوں اکٹھے ایک ہی گھر میں رہيں ، اورآپ اپنی بیوی کو نصیحت کریں اوراس کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کریں ، اورپھر اس کے سامنے اس کی نافرمانی کا ذکر کریں کہ یہ بھی ایک بڑی غلطی اورکوتاہی ہے اورآپ کی اطاعت نہ کرنا جرم ہے ، اورپھر اس کا مارنا بھی صحیح نہ تھا اوراسی طرح اس کی بیٹی نے بھی غلط کام کیا ہے ۔
اوراس بچی کوبھی سمجھانا ضروری ہے کہ تو اپنی والدہ کے خاوند کےپاس مہمان ہے ، جس نے تجھے اپنے گھر میں جگہ دی اورتیرے ساتھ احسان کیا ہے اس کا احترام کرنا ضروری ہے ، اوراگر اس بچی کا آپ کے ساتھ رہنا آپ کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اورتعلقات خراب ہوتے ہیں توپھر آپ اپنی بیوی اوراس بچی کوکسی مستقل رہائش میں رہنے پر راضي کریں اورسمجھوتہ کرلیں ۔
اوراللہ تعالی سے مدد حاصل کریں اورصبر وتحمل کا مظاہر کریں اوراپنی بیوی کے ساتھ حسن خلق کا مظاہرہ کریں ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ آپ دونوں کے دلوں میں محبت والفت ڈال دے ، اورآپ کے حالات درست فرمائے ۔ اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں برسائے ۔
واللہ اعلم .