اتوار 3 ربیع الثانی 1446 - 6 اکتوبر 2024
اردو

كيا پوتا اپنے دادے كا وارث بنے گا؟

20782

تاریخ اشاعت : 12-05-2010

مشاہدات : 9383

سوال

ميں نے سنا ہے كہ اگر كوئي شخص فوت ہوجائے اور اس كا والد زندہ ہو اور اپنے پيچھے اولاد چھوڑے تو اس كي اولاد دادے كے وارث نہيں بنيں گے، ميں يہ جاننا چاہتا ہوں كہ آيا يہ شريعت اسلاميہ كے مطابق صحيح ہے كيونكہ ميرے خيال ميں يہ ممكن نہيں كہ اللہ تعالي ايسي غيرعادلانہ تقسيم كا حكم ديں اور خاص كر اس صورت ميں اور پھر يہ يتيم بچے تو بہت زيادہ ديكھ بھال كے محتاج ہيں , اگر يہ حكم واقعي صحيح ہے تو پھر اس كے ليے كچھ شروط ہوني ضروري ہيں .
تو كيااس مسئلہ كو شريعت اسلامي كے احكام وراثت سے قرآن وسنت كے دلائل كي روشني ميں وضاحت كرنا ممكن ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ نے جويہ ذكر كيا ہے كہ باپ فوت ہوجانے كي صورت ميں اس كي اولاد اپنے دادا كے وارث نہيں بنيں گے صحيح ہے ليكن اس كي ايك شرط ہے كہ فوت ہونے والے دادے كا كوئي ايك يا ايك سے زيادہ بيٹا زندہ ہو تو اس صورت ميں پوتے بيٹے كي موجودگي جوكہ ان كا چچا بنتا ہے دادے كي وراثت سے محروم ہونگے .

ليكن اگر دادے كا كوئي بيٹا زندہ نہيں تو پوتے دادا كے وارث ہونگے.

اور عام لوگوں كا جويہ خيال ہے كہ پوتے اپنے والد كا حصہ حاصل كرينگے اجماع كے خلاف ہے اس بنا پر كہ وراثت كي شرط ميں شامل ہے موروث ( يعني جس كا وارث بنا ہے ) كي موت كے بعد وارث زندہ ہو ، لھذا جب بيٹا پہلے ہي فوت ہوچكا ہے تو يہ مستحيل ہے كہ بعد ميں مرنے والے والد كي وراثت ميں اس كا حصہ ہو .

المنھاج كي شرح تحفۃ المحتاج ( 6 / 402 ) ميں مذكور ہے كہ: ( اگردو قسميں اكٹھي ہوجائيں ) يعني صلبي اولاد اور بيٹے كي اولاد يعني پوتے ( لھذا اگر صلبي اولاد ميں اگربيٹا ہو ) اكيلا ہو يا لڑكي كے ساتھ ( تو پوتے محروم ہوجائيں گے ) اجماع كے مطابق .

ليكن جس حالت ميں پوتے وارث نہيں بنیں گے اس ميں ان كے ليے ايك تہائي حصہ ميں سے وصيت كرنا مستحب ہے اور خاص كرجب وہ محتاج اور فقراء ہوں تو وصيت مستحب ہے .

اور جواب كا خلاصہ يہ ہے كہ :

پوتے دادا كي وراثت كے ايك شرط كےساتھ وارث بنيں گے كہ اس كا كوئي بيٹا زندہ نہ ہو اور اگر اس كا بيٹا زندہ ہوا ( چاہے يہ بيٹا ان كا والد ہو يا ان كا چچا ) تو وہ پوتے وارث نہيں بنيں گے علماء كرام كا اس پر اجماع ہے .

اور مسلمان پر واجب اور ضروري ہے كہ وہ اس كا اعتقاد ركھے كہ اللہ تعالي نے جوفيصلہ كرديا ہے وہ عادلانہ ہے اور اس ميں حكمت ورحمت ہے اگرچہ اسے اس كا علم نہيں اور اس كے ليے وہ پوشيدہ ہے، اور اللہ تعالي اپنے بندوں كےليے وہي چيز مشروع كرتا ہے جس ميں ان كي صلاح وكاميابي اور فلاح وسعادت ہے فرمان باري تعالي ہے :

اللہ تعالي تمہارے ساتھ آساني كرنا چاہتا ہے سختي نہيںالبقرۃ ( 185 )

اور دوسرےمقام پر فرمايا:

اللہ تعالي چاہتا ہے كہ تم سے تخفيف كردے كيونكہ انسان كمزور پيدا كيا گيا ہے النساء ( 28 )

اور ايك مقام پر فرمايا:

سوقسم ہے آپ كےرب كي يہ اس وقت تك مؤمن ہي نہيں ہوسكتے جب تك كہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم نہ تسليم كرليں اور پھر آپ ان ميں جوفيصلہ كرديں اس سے وہ اپنے دلوں ميں كسي بھي قسم كي تنگي اور ناخوشي نہ پائيں اور فرمانبرداري كےساتھ تسليم كرليں النساء ( 65 )

اور سورۃ احزاب ميں اللہ تعالي كا فرمان ہے:

اوركسي مؤمن مرد و عورت كو اللہ تعالي اور اس كےرسول كے فيصلہ كے بعد كسي امر كا كوئي اختيار باقي نہيں رہتا ياد ركھوجوبھي اللہ تعالي اور اس كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم كي نافرماني كرے گا وہ صريح اور واضح گمراہي ميں پڑے گا الاحزاب ( 36 )

اور سورۃ مائدۃ ميں كچھ اس طرح فرمايا:

يقين ركھنے والے لوگوں كےليے اللہ تعالي سے بہتر فيصلے كرنا والا اور كون ہوسكتا ہے ؟ المائدۃ ( 50 ) مزيد تفصيل كےليے آپ مندرجہ ذيل سوال نمبروں كے جوابات ضرور ديكھيں: ( 1239 ) ( 13932 ) ( 22466 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب