سوموار 17 جمادی اولی 1446 - 18 نومبر 2024
اردو

لا علاج مرض کی وجہ سے روزے چھوڑے ، بعد میں روزہ رکھنے کی استطاعت پیدا ہوگئی۔

208441

تاریخ اشاعت : 28-06-2014

مشاہدات : 7945

سوال

سوال: مجھے کافی عرصہ سے گردے فیل ہونے کا عارضہ لاحق ہے، میں 1431 ہجری تک بغیر کسی مشقت کے روزے رکھتا آیا ہوں، لیکن مجھے اسی سال کے دوران مشقت محسوس ہونے لگی، اور اسے کے بعد میری صحت گرتی چلی گئی، یہاں تک کہ میری حالت کافی بگڑ گئی، اور میں مسلسل اور آہستہ آہستہ اتنا کمزور ہوگیا کہ 1432 اور 1433 کے رمضان میں روزے نہ رکھ پایا، تو میں نے ایک معروف اسلامی سائٹ کے فتوے کے مطابق روزوں کے بدلے میں فدیہ دے دیا، لیکن اسوقت میں نے روزوں کے بارے میں داکٹر سے مشورہ نہیں کیا تھا، اس سال 1434 میں ، میں نے الحمد للہ رمضان میں روزےرکھے ہیں؛ کیونکہ اس سال روزے رکھنے کی بہت زیادہ دل میں چاہت تھی، اس لئے کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ روزہ میری صحت کیلئے مفید ہے کہ روزے کی وجہ سے میرے جسم کے فاسد مادے خارج ہوجائیں گے، یہ بات مجھے پہلے معلوم نہیں تھی۔
تو کیا اب میں رمضان 1432 اور 1433 کے روزوں کی قضا دوں ، یا نا دوں؟ ذہن نشیں رہے کہ میری حالت دن بدن بگڑتی چلی جا رہی ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

سب سے پہلے ہم اللہ تعالی سے آپکی سلامتی اور عافیت کے امیدوار ہیں، اور آپکو صبر ، اور اللہ کے ہاں ثواب کی امید سے منسلک رہنے کی نصیحت بھی کرتے ہیں، آپ یقین جانئے کہ آپ جس تکلیف میں مبتلا ہیں وہ ظاہری طور پر مشقت لبریز ہے، لیکن حقیقت میں اللہ کے حکم سے اس میں آپکے لئے بھلائی ہے، کیونکہ تکلیف میں مبتلا شخص کا مقام اللہ کے ہاں خیر و عافیت سے سر شار شخص جیسا نہیں ہوتا، ایسے ہی مریض کا درجہ تندرست جیسا نہیں ہوتا ، بشرطیکہ مریض صبر کرے، اللہ کے ہاں ہر چیز ایک وقت مقررہ کیلئے ہے۔

گذشتہ دو سال کے روزے چھوڑنے پر ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے آپکو اس کی اجازت دی ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:

( فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ )

ترجمہ: جو شخص تم میں سے مریض ہو یا سفر پر ہو تو بعد میں روزے رکھے، اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ مسکین کو کھانا کھلائیں۔ البقرة/184

عطاء کہتے ہیں : "انہوں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سنا [اپنی قراءت کے مطابق ]وہ پڑھ رہے تھے: (وعلى الذين يطوقونه فلا يطيقونه فدية طعام مسكين) ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت انتہائی بوڑھے مرد اور عورت کیلئے ہے جو روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے، چنانچہ وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے"

بخاری حدیث نمبر: (4505)

آپکی طرف سے پیش کردہ صورتِ حال کے بارے میں فقہاء نے کافی تحقیق کی ہے کہ اگر شفا سے ناامید مریض یا بوڑھا شخص روزے چھوڑ دے، اور آئندہ برسوں میں روزہ رکھنے کی استطاعت پا لے تو کیا گذشتہ روزوں کے بدلے میں فدیہ کافی ہوگا یا سابقہ روزوں کی قضا بھی دینی ہوگی، اس بارے میں فقہائے کرام کے تین اقوال ہیں:

پہلا قول:

ایسے مریض پر قضا ضروری نہیں ہے، فدیہ دینا ہی کافی ہے، شوافع کے ہاں اسی موقف پر اعتماد کیا گیا ہے۔

چنانچہ امام رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"مذکورہ افراد پر بعد میں استطاعت پانے کی وجہ سے قضا ضروری نہیں ہوگی، کیونکہ روزہ ان سے ساقط ہوچکا ہے، اور روزے کا ان سے مطالبہ ہے ہی نہیں، یہی موقف "المجموع" میں صحیح ترین قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اصل میں ایسے لوگوں سے فدیہ دینے کا ہی شریعت نے مطالبہ کیا ہے، روزے کے متبادل طور فدیہ کا مطالبہ نہیں کیا گیا"

صاحب حاشیہ نے اس پر تعلیق چڑھاتے ہوئے کہا:

" مذکورہ افراد پر بعد میں استطاعت پانے کی وجہ سے قضا ضروری نہیں ہوگی " یعنی : چاہے فدیہ ادا کرنا ابھی باقی ہو، پھر بھی صرف فدیہ ہی ادا کیا جائے گا، روزے نہیں رکھے جائیں گے "انتہی

" نهاية المحتاج " (3/193)

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر ایسے شخص کو بعد میں روزہ رکھنے کی صلاحیت حاصل ہوگئی تو تب بھی قضا دینا ضروری نہیں، جیسے کہ یہی اکثر علمائے [شوافع]کا موقف ہے"انتہی

" تحفة المحتاج " (3/440)

دوسرا قول:

ایسے شخص کو روزوں کی قضا دینا ہوگی، یہ موقف احناف کا ہے، اور شوافع کے ہاں ایک توجیہ یہ بھی ہے۔

جیسے کہ " رد المحتار على الدر المختار " (2/427) میں ہے:

"جیسے ہی بوڑھے شخص میں روزہ رکھنے کی صلاحیت پیدا ہو تو روزوں کی قضا دینا ضروری ہوگا" انتہی

تیسرا قول:

اس میں ذرا تفصیل ہے، کہ اگر فدیہ دینے کے بعد شفا یاب ہوا، تو اس پر قضا نہیں ہے، اور اگر فدیہ دینے سے پہلے شفایاب ہوگیا تو اس حالت میں روزہ رکھنا ضروری ہوگا، یہ موقف حنابلہ کا ہے، اور شوافع میں سے بغوی نے اسی کو ثابت کیا ہے۔

چنانچہ بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اگر انہوں نے کھانا کھلا دیا بعد میں قضا دینے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ۔۔۔۔تو ایسی صورت میں قضا دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ کھانا کھلانا ہی کافی ہوجائے گا، "المبدع" میں ایسے ہی بیان کیا گیا ہے، اسکا مفہومِ مخالف یہ ہے کہ اگر کھانا کھلانے سے قبل شفا یاب ہوگیا تو ایسی صورت میں قضا دینا ضروری ہوگا" انتہی

" كشاف القناع " (2/310)

امام نووی کی کتاب " المجموع " (6/261) میں ہے کہ:

"امام بغوی نے اپنے لئے یہ قول پسند کیا کہ : اگر فدیہ دینے سے قبل روزہ رکھ سکے تو اس پر روزے رکھنا ضروری ہوگا، اور اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی استطاعت حاصل کرے تو ممکن ہے کہ یہ بھی حج ہی کی طرح ہوگا[مطلب یہ ہے کہ جس طرح حج کرنے کا حکم صاحب استطاعت کو ہے اسی طرح روزہ رکھنے کا حکم بھی صاحب استطاعت ہی کو ہے، اور جو شخص استطاعت نہیں رکھتا وہ فدیہ دے دے۔ مترجم]؛ کیونکہ عذر کے دائمی ہونے کے اندیشے کی وجہ سے شریعت نے اس سے مطالبہ ہی فدیہ کا کیا تھا، لیکن حقیقت میں اندیشہ غلط ثابت ہوا" انتہی

ان تینوں اقوال میں سے قوی -ان شاء اللہ -پہلا قول ہے:

یعنی عذر کی بنا پر چھوڑے گئے روزوں کی طرف سے فدیہ کافی ہوجائے گا، چاہے پہلے ہی فدیہ ادا کردیا گیا ہو، یا ابھی تک فدیہ ادا نا کیا گیا ہو، اور قضا بھی واجب نہیں ہوگی، اسکی وجہ یہ ہے کہ دائمی مرض کی حالت میں اس سے مطالبہ ہی فدیہ کا کیا گیا تھا، لہذا اب اس سے کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا، مزید برآں کہ کچھ حالات میں سابقہ روزوں کی قضا دینے میں کافی مشقت کا سامنا کرنا پڑے گا، اور مشقت آسانی کی متقاضی ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا گیا:

"ایک شخص کو دائمی مرض لاحق ہوگیا ہے، اور ڈاکٹروں نے اسے روزوں سے بالکل منع کردیا ہے، لیکن اس نے پانچ سال بعد غیر ملک میں جاکر ڈاکٹروں سے علاج کروایا تو اللہ کے حکم سے شفا یاب ہوگیا، اب پانچ رمضان مسلسل اس نے روزے نہیں رکھے، اللہ نے اسے شفا دے دی ہے تو اب وہ سابقہ روزوں کا کیا کرے ؟ قضا دے یا نا دے؟

تو انہوں نے جواب دیا:

اگر روزوں سے منع کرنے والے ڈاکٹر حضرات مسلمان ، معتمد ، اور مذکورہ بیماری کے بارے میں متخصص تھے ، اور انہوں نے یہ کہا تھا کہ ، یہ لا علاج ہے، تو مریض پر قضا لازم نہیں ہوگی، کھانا کھلانا ہی کافی ہوگا، اور مریض کو چاہئے کہ آئندہ آنے والے روزے پابندی سے رکھے" انتہی

" مجموع فتاوى ابن باز " (15/354)

مزید کیلئے فتوی نمبر دیکھیں: (84203)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:

اُس وقت ڈاکٹروں سے استفسار نا کرنے کے با وجود سابقہ دو سال 1432 اور 1433 کے رمضان کے روزوں کی آپ پر قضا ضروری نہیں ہے، کیونکہ یہ بات معروف ہے کہ گردے کی بیماری دائمی بیماری ہے، اور گردوں کے مریض کیلئے عام طور پر روزے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، معتبر بات وہ ہے جو مریض کے اپنے دل میں ہو، طبیب سے رجوع کرنے کو فقہائے کرام نے ضروری نہیں کہا، بلکہ فقہائے کرام اطباء سے رجوع کی نصیحت اس لئے کرتے ہیں کہ کہیں روزے رکھنے کی وجہ سے کسی قسم کا نقصان نہ اٹھانا پڑے۔

بہر حال ہم آپکو یہی نصیحت کرینگے کہ آپ ہر سال روزوں سے قبل ڈاکٹر حضرات سے رجوع کریں اور ان سے اس بارے میں مشورہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب