الحمد للہ.
اول:
درج ذيل حديث:
" جس نے بھى نمازميں سستى اور حقارت سے كام ليا، اللہ تعالى اسے پندرہ قسم كى سزائيں دے گا، چھ دنيا ميں، اور تين موت كے وقت، اور تين قبر ميں، اور تين قبر سے نكلتے وقت .... "
يہ حديث موضوع اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ باندھا گيا ہے.
فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى اس كے متعلق مجلۃ " البحوث الاسلاميۃ " ميں كہتے ہيں:
اس پملفٹ والے نے تارك نماز كے متعلق جس حديث كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف منسوب كيا ہے كہ:
" تارك نماز كو پندرہ قسم كى سزائيں دى جائينگى الخ "
يہ باطل اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ باندھى جانے والى احاديث ميں شامل ہوتى ہے.
جيسا كہ علماء كرام ميں سے حفاظ كرام نے مثلا حافظ ذھبى رحمہ اللہ تعالى نے " لسان الميزان " ميں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى وغيرہ نے بيان كيا ہے.
ديكھيں مجلۃ: البحوث الاسلاميۃ ( 22 / 329 ).
اور اسى طرح مستقل فتوى كميٹى نے بھى اس حديث كےباطل ہونے كے متعلق فتوى جارى كيا ہے:
يہاں فتوى كميٹى كے علماء كرام كا قول ذكر كرنا بہتر معلوم ہے، مستقل فتوى اور اسلامى ريسرچ كميٹى كے فتوى نمبر ( 8689 ) ميں ہے:
" ..... اور نماز اور تارك نماز كى سزا كے متعلق جو كچھ اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے وہ كافى اور شافى ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يقينا مومنوں پر نماز وقت مقررہ پر ادا كرنى فرض كى گئى ہے النساء ( 103 ).
اور اللہ سبحانہ وتعالى نے جہنميوں كے متعلق فرمايا:
تمہيں جہنم ميں كس چيز نے پھينكا؟ وہ كہينگے ہم نماز ادا نہيں كرتے تھے ... المدثر ( 42 - 43 ).
چنانچہ اللہ تعالى نے جہنميوں كى صفات ميں نماز كا ترك كرنا بھى ذكر كيا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے اور ان كے درميان عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز ترك كى اس نے كفر كا ارتكاب كيا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1079 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 2113 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اس موضوع كے متعلق بہت سى آيات ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى بہت سى احاديث ميں ترك نماز كو كفر قرار ديا ہے.
مزيد تفصيل كے آپ سوال نمبر ( 2182 ) كا مطالعہ ضرور كريں.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ حديث موضوع اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جھوٹ ہے، كسى شخص كے ليے بھى اسے نشر كرنا اور لوگوں ميں پھيلانا حلال نہيں، ليكن اگر كوئى شخص اس كى موضوعيت اور من گھڑت ہونا بيان كرنا چاہے تو وہ نشر كر سكتا ہے، تا كہ لوگ اس كے متعلق جان سكيں اور انہيں بصيرت حاصل ہو.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن عثيمين جارى كردہ مركز الدعوۃ والارشاد عنيزہ قصيم سعودى عرب ( 1 / 6 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اپنے بھائيوں كو دعوت دينے اور ان كى اصلاح كرنے كى حرص ركھنے پر اجروثواب سے نوازے، ليكن يہ ضرور ہے كہ جو شخص بھى لوگوں ميں خير و بھلائى پھيلانے كى رغبت اور حرص ركھتا ہے، اور انہيں برائى اور شر سے بچانا اور ڈرانا چاہتا ہے، وہ اس چيز كے ساتھ كرے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور صحيح احاديث ميں كفائت اور ضعيف احاديث سے استغناء پايا جاتا ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كى كوششوں كو كاميابى سے نوازے، اور جنہيں آپ دعوت دينا چاہتے ہيں، اللہ تعالى انہيں اور سب مسلمانوں كو طريق مستقيم كى طرف چلائے.
واللہ اعلم .