الحمد للہ.
اول:
فوت شدہ مسلمان کوئی چھوٹا ہو یا بڑا سب کو غسل دینا واجب ہے، چنانچہ اگر غسل دینا ممکن ہو تو غسل لازمی دیا جائے گا، اور اگر غسل دینا ناممکن ہو تو تیمم کروایا جائے گا، اور اگر کچھ حصے کو غسل دیا جا سکتا ہے، اور کچھ کو نہیں تو ایسی صورت میں جہاں تک ممکن ہو سکے غسل دیا جائے گا، اور جہاں غسل نہ دیا جا سکے اس جگہ کا تیمم کروایا جائے گا۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (154635) اور (194752) کا مطالعہ کریں۔
فقہائے کرام نے اس بارے میں بالکل واضح لفظوں میں لکھا ہے کہ:
اگر میت کو غسل دینے سے کسی خطرے کا اندیشہ ہو یعنی میت کو پانی سے نقصان پہنچ سکتا
ہو تو غسل دینا ساقط ہو جائے گا، چنانچہ میت کو تیمم کروایا جائے گا۔
ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"جس میت کو پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے، یا میت کے جلے ہوئے ہونے کی وجہ سے یا
میت کے جسم میں زہر سرائیت کرنے کی وجہ سے غسل دینا نا ممکن ہو ، اور اگر غسل دیا
گیا تو میت کا جسم [زہر کی وجہ سے]پیلا پڑ جائے گا، یا غسل دینے والے کیلئے خطرہ
ہو، اور ان خطرات سے بچاؤ کا کوئی راستہ بھی نہ ہو، تو وجوبِ غسل ساقط ہو جائے گا،
اور میت کو واجب طور پر تیمم کروایا جائے گا" انتہی
ماخوذ از: "تحفۃ المحتاج" (3/184) اور دیکھیں: "المجموع" (5/178)
دوم:
فقہائے کرام کا ایسے شخص کے بارے میں اختلاف ہے جسے غسل دینا یا تیمم کروانا مشکل ہو: کیا اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں ؟
چنانچہ
"الموسوعة الفقهية" (2/ 119) میں ہے کہ:
"مالکی فقہاء میں سے ابن حبیب ، حنبلی، اور شافعی فقہاء میں سے متاخرین اس بات کے
قائل ہیں کہ غسل اور تیمم ناممکن ہونے کی صورت میں بھی اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے
گی؛ کیونکہ اسکی نمازِ جنازہ ترک کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے؛ کیونکہ جو کام ممکن
ہو وہ نا ممکن کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتا، اسکی وجہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: (جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل
کرو) اور ویسے بھی نمازِ جنازہ کا مقصد میت کیلئے دعا اور شفاعت ہوتا ہے۔
جبکہ احناف، جمہور شافعی، اور مالکی فقہائے کرام کے ہاں ایسے شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی جائے گی؛ کیونکہ ان میں سے بعض فقہائے کرام میت پر نمازِ جنازہ درست ہونے کیلئے نماز جنازہ سے پہلے میت کو غسل دینے کی شرط لگاتے ہیں، اور بعض فقہائے کرام نمازِ جنازہ کیلئے میت سامنے ہونا یا میت کا اکثر حصہ موجود ہونا لازمی قرار دیتے ہیں، چنانچہ میت کو اگر غسل دینا یا تیمم کروانا ناممکن ہوا تو اس کا جنازہ نہیں پڑھایا جائے گا، کیونکہ شرط نہیں پائی گئی" انتہی
اور راجح -واللہ اعلم- پہلا قول ہے کہ چاہے میت کو غسل دینا یا
تیمم کروانا بھی نا ممکن ہو تب بھی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؛ کیونکہ نماز
جنازہ میت کا مسلمانوں پر حق ہے، اسی طرح غسل بھی اور اگر غسل نا ممکن ہو تو تیمم
میت کا حق ہے، لیکن جب کچھ واجبات کو ادا کرنا ناممکن ہو جائے تو جن واجبات کو ادا
کرنا ممکن ہے وہ ساقط نہیں ہونگے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ
)
ترجمہ: تم اللہ تعالی سے اپنی استطاعت کے مطابق ڈرو۔ [التغابن: 16]
خطیب شربینی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی کسی چیز کے نیچے دب کا مر جائے، یا ایسے کنویں میں یا گہرے پانی میں گر
جائے جہاں سے اسے نکالنا اور غسل دینا نا ممکن ہو، تو اسکی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی
جائے گی، کیونکہ [غسل اور میت کی موجودگی کی]شرط مفقود ہے، یہی موقف شیخین[یعنی
رافعی اور نووی] نے متولی سے نقل کیا ، اور اسے تسلیم بھی کیا ہے۔
اور مجموع میں یہ ہے کہ: اس میں کوئی اختلاف نہیں ، جبکہ کچھ متاخرین کا کہنا ہے
کہ ایسی میت پر نماز جنازہ ترک کرنے کی کوئی [قابل قبول]وجہ نہیں ہے، کیونکہ ممکن
الحصول غیر ممکن الحصول کی وجہ سے ساقط نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے ثابت ہے کہ: (جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اس پر اپنی استطاعت کے
مطابق عمل کرو)متفق علیہ؛ اور ویسے بھی اس نماز سے مقصود میت کیلئے دعا، اور شفاعت
ہوتی ہے۔
دارمی نے ٹھوس الفاظ میں کہا ہے کہ جس میت کو غسل دینا ممکن نہ ہو اس کا جنازہ پڑھا
جائے گا، دارمی کہتے ہیں: اگر اسکا جنازہ نہ پڑھا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ جو
شخص جل کر راکھ بن گیا، یا درندے اسے کھا جائیں تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے،
جبکہ مجھے اپنے ہم مذہب فقہاء میں سے کوئی اس بات کا قائل نظر نہیں آتا، اور اذرعی
رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
اور متاخرین کی بات پر دل زیادہ میلان رکھتا ہے، لیکن ہم نے جو اپنے مشایخ سے حاصل
کیا ہے وہ یہی ہے جو متن میں ہے" انتہی
"مغنی المحتاج" (2/ 49)
اسی کے مطابق [یعنی جنازہ پڑھا جائے گا]کویت کی فتوی کمیٹی نے بھی فتوی جاری کیا ہے، جو کہ ایک لمبی علمی بحث کی شکل میں ہے، مزید فائدے کیلئے اس کی طرف بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم.