الحمد للہ.
اول:
اگر نمازی شخص عربی زبان میں دعا مانگ سکتا ہے تو اس کیلیے غیر عربی زبان میں مانگنا جائز نہیں ہے۔
تاہم اگر نمازی کو عربی زبان میں دعا نہیں مانگنی آتی تو پھر وہ اپنی زبان میں دعا مانگ سکتا ہے، البتہ اس دوران عربی زبان میں دعائیں سیکھ لے۔
لیکن خارج از نماز کسی بھی زبان میں دعا مانگی جا سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ اپنی مادری زبان میں دعا مانگنے پر دل و دماغ بھی دعا میں حاضر ہوں گے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دعا عربی یا غیر عربی زبان میں مانگنا جائز ہے، اللہ تعالی دعا مانگنے والے کے ارادے اور مقصد کو جانتا ہے، اگر دعا مانگنے والے کی زبان ہی سیدھی نہیں ہے تو اللہ تعالی آوازوں کے شور وغل میں مختلف زبانوں والوں کی الگ الگ ضروریات مانگنے کو بھی جانتا ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 22 / 488 – 489 )
مزید کیلیے دو سوالات: (3417) اور (11588) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
قرآنی دعائیں اگرچہ احادیث میں نہ بھی ہوں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے، قرآن و سنت دونوں میں خیر و برکت ہے، انبیائے کرام اور رسولوں کی دعاؤں کا ہمیں قرآن مجید سے ہی علم ہوتا ہے، اور یہ بات یقینی ہے کہ انبیائے کرام کی دعائیں فصیح و بلیغ اور جامع ہوتی ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب لوگوں کو چاہیے کہ کتاب و سنت میں آنے والی دعاؤں کو اپنی دعا کا حصہ بنائیں؛ کیونکہ ان دعاؤں کی فضیلت، خوبصورتی اور ان کے صراطِ مستقیم پر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، علمائے کرام نے اور ائمہ دین نے شرعی دعائیں تفصیل سے بیان کرتے ہوئے بدعتی الفاظ والی دعاؤں کو مسترد کر دیا ہے اس لیے ان کی بتلائی ہوئی دعاؤں کو اپنی دعاؤں میں شامل کرنا چاہیے"
" مجموع الفتاوى " ( 1 / 346 - 348 )
واللہ اعلم.