جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

نظر بد کی حقیقت اور اس سے بچاؤ اور علاج کا طریقہ کار

سوال

نظر لگ جانے کا کیا مطلب ہے؟ اس کی وضاحت کر دیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ذیل میں نظر بد سے متعلق فتاوی موجود ہیں، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی انہیں مفید بنائے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"نظرِ بد کیا ہے؟ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے کہ: وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ترجمہ: اور [میں پناہ چاہتا ہوں] حاسد کے حسد سے جب وہ حسد کرے ۔[الفلق: 5] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حدیث صحیح ہے جس میں ہے کہ قبروں میں مدفون لوگوں کی ایک تہائی نظر بد کی وجہ سے ہے؟ اگر انسان کو کسی کے بارے میں حسد کرنے کے متعلق شک ہو تو ایک مسلمان کو کیا کرنا اور کیا کہنا چاہیے؟ نظر لگانے والے شخص کے غسل کے پانی سے شفا یابی ملتی ہے؟ کیا اسے پینا ہوتا ہے یا اس سے غسل کرنا ہوتا ہے؟"

تو انہوں نے جواب میں کہا:
" العین یعنی نظر بد: عربی زبان میں " عان يَعين " سے ماخوذ ہے، جو کسی کو نظر بد لگانے پر بولا جاتا ہے۔ نظر بد کی حقیقت یہ ہے کہ: نظر لگانے والا شخص کسی چیز کو بہت اچھا سمجھتا ہے، اور پھر اس کے نفس کی خبیث کیفیت اس چیز کے پیچھے پڑ جاتی ہے، اور پھر اپنی زہریلی خباثت اس پر ڈالنے کے لیے نظروں کی مدد حاصل کرتی ہے۔
اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حاسد کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا اور فرمایا: وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ترجمہ: اور [کہہ میں پناہ چاہتا ہوں] حاسد کے حسد سے جب وہ حسد کرے۔ [الفلق: 5]
ہر نظر لگانے والا حاسد ہوتا ہے جبکہ ہر حاسد نظر لگانے والا نہیں ہوتا۔ چنانچہ حاسد نظر لگانے والے سے زیادہ عام لفظ ہے اس لیے حسد سے پناہ چاہنے سے نظر بد سے بھی پناہ ملتی ہے۔

نظرِ بد: حاسد اور عائن یعنی نظر بد لگانے والے کی طرف سے حسد اور نظر بد سے متاثر شخص کے خلاف چلائے گئے نظر کے تیر ہوتے ہیں جو کبھی اسے لگ جاتے ہیں اور کبھی وہ بچ جاتا ہے، جب یہ تیر ایسی حالت میں چلیں جس وقت محسود یا عین زدہ شخص نے اپنے آپ کو شرعی تحفظ نہ دیا ہوا ہو تو یہ تیر اس پر اثر انداز ہو جاتے ہیں، اور اگر اس شخص نے اپنے آپ کو شرعی تحفظ دیا ہوا ہو تو پھر نظر بد کے یہ تیر اثر انداز نہیں ہو پاتے بلکہ بسا اوقات ممکن ہے کہ یہ نظر بد واپس عائن شخص کو ہی نقصان دے دے" ختم شد
ماخوذ از: زاد المعاد

نظر لگنے سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے احادیث ثابت ہیں، چنانچہ انہی میں سے صحیح بخاری و مسلم کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت بھی ہے، آپ کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے حکم دیا کرتے تھے کہ میں نظر بد سے دم کرواؤں) اسی طرح صحیح مسلم، مسند احمد، اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نظر بد اثر رکھتی ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب ہوتی تو نظر بد ہوتی، جب تم سے غسل کے پانی کا مطالبہ کیا جائے تو تم غسل کر کے پانی دے دو) اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کرنے کے بعد اسے صحیح قرار دیا، اسی طرح البانیؒ نے بھی سلسلہ صحیحہ: (1251) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح امام ترمذی : (2059) نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے ، آپ کہتی ہیں کہ : "اللہ کے رسول! جعفر کی اولاد کو نظر بہت لگتی ہے، تو کیا میں ان پر کسی سے دم کروا لوں؟" تو آپ نے فرمایا: ( ہاں، کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب ہوتی تو نظر بد ہوتی ) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

ایسے ہی ابو داود میں سیدہ عائشہ رضی للہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ کہتی ہیں: "عائن شخص کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ وضو کرے اور عین زدہ شخص اس کے پانی سے غسل کرے۔" اسے البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح امام احمد: (15550) ، اور امام مالک: (1747) ، نسائی، ابن حبان نے روایت کیا ہے اور البانی نے مشکاۃ: (4562) میں سہل بن حنیف سے نقل ہے کہ وہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ کی جانب عازم سفر ہوئے اور جب جحفہ کے قریب شعب خرار نامی جگہ پہنچے تو سہل بن حنیف نے غسل کرنا شروع کیا ، سہل کی رنگت گوری اور خوبصورت تھی، انہیں غسل کرتے ہوئے بنی عدی بن کعب کے عامر بن ربیعہ نے دیکھا تو عامر یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ: "آج سے پہلے میں نے اتنی صاف رنگت والی جلد کبھی نہیں دیکھی" یہ کہنا ہی تھا کہ سہل فوری طور پر زمین پر گر گئے، پھر انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لایا گیا اور کہا گیا کہ: اللہ کے رسول! کیا آپ سہل کا کچھ کریں گے، اللہ کی قسم وہ تو اپنا سر بھی نہیں اٹھا پا رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہیں کس پر شک ہے؟ انہوں نے کہا: عامر بن ربیعہ نے اسے دیکھا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر کو بلایا اور ڈانٹ پلائی، اور فرمایا: (اپنے بھائی کو [نظر بد کے ذریعے] کیوں مارتے ہو؟! جب تو نے اپنے بھائی میں کوئی اچھی چیز دیکھی تو اس کے لیے برکت کی دعا کیوں نہیں کی؟!، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر بن ربیعہ کو حکم دیا کہ سہل بن حنیف کو غسل کا پانی مہیا کرنے کے لیے غسل کرے ۔ تو عامر بن ربیعہ نے اپنا چہرہ، دونوں ہاتھ ، کہنیاں، پاؤں گھٹنوں تک اور تہہ بند کے اندرونی حصے کو ایک بڑے پیالے میں دھوئے، پھر اس پانی کو سہل پر ڈال دیا گیا، پانی ایک آدمی نے سہل کے سر، اور پیچھے سے کمر پر ڈالا، اور پھر اس پیالے کو اس کے پیچھے انڈیل دے۔ انہوں نے ایسے ہی کیا تو سہل بن حنیف اٹھ کر لوگوں کے ہمراہ چل پڑے جیسے انہیں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔)

تو مذکورہ احادیث اور دیگر دلائل سمیت مشاہدے کی بنا پر جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ نظر لگ سکتی ہے ۔

آپ نے جو حدیث سوال میں ذکر کی ہے کہ " قبروں میں مدفون لوگوں کی ایک تہائی نظر بد کی وجہ سے ہے " تو ہمیں اس کی صحت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ البتہ نیل الاوطار میں ہے کہ بزار نے حسن سند کے ساتھ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میری امت میں قضا و قدر کے بعد سب سے زیادہ لوگ نظر لگنے کی وجہ سے فوت ہوتے ہیں۔)

مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو شیاطین اور سرکش جن و انس سے محفوظ رکھے اور اس کے لیے اللہ تعالی پر مضبوط ایمان، اللہ تعالی پر مکمل بھروسا، توکل علی اللہ، اور اللہ تعالی سے گڑگڑا کر مانگی گئی دعاؤں کا سہارا لے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ حفاظتی دعائیں پڑھے، سورت الفلق اور سورت الناس کثرت سے پڑھے، سورت اخلاص، سورت فاتحہ اور آیت الکرسی کی تلاوت کرتا رہا کرے۔ ذاتی تحفظ کے لیے نبوی دعاؤں میں سے کچھ یہ ہیں:
أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
یعنی: میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ حاصل کرتا ہوں ، اللہ کی مخلوقات کے شر سے۔

أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ ، وَمِنْ شَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِيْنِ وَأَنْ يَّحْضُرُوْنَ
یعنی: میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ حاصل کرتا ہوں اللہ کے غضب سے، اللہ کی سزا سے، اللہ کے بندوں کے شر سے، اور شیاطین کے پاگل پن سے اور اس بات سے کہ شیطان میرے پاس آئیں۔

اسی طرح فرمانِ باری تعالی کثرت سے پڑھیں:
حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
ترجمہ: مجھے اللہ ہی کافی ہے جس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔[التوبہ: 129] اسی طرح کی دیگر مسنون اور ثابت شدہ دعائیں بھی پڑھے، ابن قیم رحمہ اللہ کی جواب کے آغاز میں ذکر کی گئی گفتگو کا مطلب بھی یہی ہے۔

اگر عائن شخص [جس کی نظر لگی ہو اس ] کا علم ہو جائے ، یا کسی کے بارے میں شک ہو کہ اس کی نظر لگی ہے تو پھر ایسے عائن شخص کو متاثرہ مریض کے لیے غسل کرنے کا حکم دیا جائے گا، چنانچہ ایک بڑے برتن میں پانی لے کر اس پانی میں اپنا ہاتھ ڈالے ، پھر کلی اسی برتن میں کرے، اسی برتن میں اپنا چہرہ دھوئے، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو استعمال کرتے ہوئے دائیں گھٹنے پر پانی ڈالے اور گھٹنے سے پانی برتن میں گرائے، پھر دایاں ہاتھ استعمال کرتے ہوئے بائیں گھٹنے پر پانی ڈالے ، اور اپنی تہبند اسی پانی میں دھوئے، اور پھر عین زدہ شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر یک بارگی یہ سارا پانی اس پر انڈیل دے، اللہ کے حکم سے وہ شفا یاب ہو جائے گا۔
" فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 1 / 186 )

اسی طرح شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا انسان کو نظر لگ جاتی ہے؟ اور پھر اس کا علاج کیسے کیا جائے گا؟ کیا ذاتی تحفظ کے لیے اقدامات کرنا توکل کے منافی ہے؟

تو انہوں نے جواب دیا:
نظر لگنے کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ نظر لگ جاتی ہے اور اس کا ثبوت شرعی بھی ہے اور مشاہداتی بھی ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ 
 ترجمہ: اور عین ممکن ہے کہ کافر لوگ آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں۔[القلم: 51]
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سمیت دیگر مفسرین بھی یہ کہتے ہیں کہ: یہاں مطلب یہ ہے کہ آپ کو نظر بد سے دو چار کر دیں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (نظر اثر رکھتی ہے، اور اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آ سکتی ہوتی تو وہ نظر بد ہوتی، جب تم سے [نظر بد کے علاج کے لیے] غسل کا پانی طلب کیا جائے تو تم غسل کر کے دے دو ) اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اسی طرح سنن نسائی اور ابن ماجہ میں عامر بن ربیعہ کا واقعہ بھی ہے کہ وہ سہل بن حنیف کے پاس سے اس وقت گزرے جب وہ غسل کر رہے تھے ۔۔۔ پھر مکمل واقعہ ذکر کیا۔

اسی طرح زمینی حقائق اور مشاہداتی واقعات بھی اس کے گواہ ہیں، ان کا انکار ممکن نہیں ہے۔

اگر کسی کو نظر بد لگ جائے تو پھر اس کا شرعی علاج کئی طریقوں سے ممکن ہے:

1-دم کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (نظر بد اور بخار کے علاوہ دم ہے ہی نہیں۔) ترمذی: (2057) ابو داود: (3884)۔ اسی طرح سیدنا جبریل بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دم کرتے ہوئے کہتے تھے: بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيْكَ ، مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيْكَ ، مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ ، اللهُ يَشْفِيْكَ ، بِاسْمِ اللهِ أَرْقِيْكَ یعنی: اللہ کے نام سے میں آپ کو دم کرتا ہوں، آپ کو تکلیف دینے والی ہر چیز سے، ہر جان اور حاسد آنکھ کے شر سے ، اللہ آپ کو شفا دے گا، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔

2-عائن شخص سے غسل کا پانی لے کر غسل کرنا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عامر بن ربیعہ کو گزشتہ حدیث میں غسل کا پانی دینے کا حکم دیا اور پھر نظر زدہ شخص پر وہ پانی ڈال دیا گیا۔

لیکن عائن شخص کے پیشاب یا پاخانے کے فضلے کو لینا تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اسی طرح عائن شخص کے آثار کو لینے کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے، حدیث مبارکہ میں صرف یہی ہے کہ عائن شخص کے اعضا اور تہبند کے اندرونی حصے کو دھو کر پانی سے غسل کیا جائے، یہ ممکن ہے کہ تہبند کے حکم میں سر کے رومال، ٹوپی اور قمیص کا اندرونی حصہ بھی شامل ہو جائے۔ واللہ اعلم

نظر بد سے بچاؤ کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ توکل کے منافی بھی نہیں ہے، بلکہ یہی توکل ہے؛ کیونکہ توکل در حقیقت اللہ تعالی پر اعتماد کے ساتھ ایسے اسباب اپنانے کو کہتے ہیں جو شریعت میں جائز ہیں ۔ اسباب اپنانے کا اللہ تعالی نے حکم بھی دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو پیشگی دم کیا کرتے تھے اور فرماتے: أُعِيْذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَّهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ یعنی: میں تم دونوں کو اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان ، زہریلی چیز اور ہر نظر بد کے شر سے۔

اس حدیث کو ترمذی: ( 2060 ) اور ابو داود: ( 4737 )نے روایت کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بھی فرماتے تھے کہ: (سیدنا ابراہیم علیہ السلام اسحاق اور اسماعیل دونوں کو ایسے ہی دم کیا کرتے تھے۔) بخاری: (3371)

" فتاوی شیخ ابن عثیمین " ( 2 / 117 ، 118 )

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (11359 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب