جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

زنا کی سزائيں اور اس سے بچنے کی کیفیت

20983

تاریخ اشاعت : 03-01-2004

مشاہدات : 27315

سوال

مشکل یہ ہے کہ میں ایک تیس سالہ جوان ہوں اورانیس برس کی لڑکی سے تعارف ہوا لڑکی خود ہی تمام وسائل اورقابل ذکر بات چیت کے بغیرمیرے قریب ہوئي ، میں اسے اپنے فلیٹ میں لے گیا اوراس دسیوں بارمجامعت کرچکا ہوں بالاخر اچانک مجھے موت اوراس کے قرب کا احساس ہوا جس کی بنا پر توبہ کا ارادہ کیا اوراپنے والد کے پاس جاکر شادی کرنے کا کہا ۔
اوربالفعل والد صاحب نے ایک نیک اورصالح اوراچھے خاندان کی لڑکی سے شادی کردی میری بیوی ایک وفاشعار بیوی ثابت ہوئي ہے شادی میں میری بھی یہی کوشش تھی کہ کوئي نیک اورصالحہ خاتون مل جاۓ تو اللہ تعالی نے ایک جلیل القدر مولانا کی بیٹی کومیری بیوی بنا دیا ۔
لیکن میں اب تک ایک مشکل کا شکار ہوں باوجود اس کے کہ شادی کو ڈیڑھ برس سے بھی زائدگزر چکا ہے اورسب لوگوں کی نظر میں یہ شادی ایک کامیاب شادی گزر رہی ہے ۔ مجھے اپنی اس سابقہ محبوبہ کے بارہ میں مشکل درپیش ہے کہ میں آج تک اسے چھوڑ نہیں سکا صرف اتنا ہے کہ شادی سے لے کر آج تک میں نے اسے چھوا تک نہیں اورنہ ہی اسے اپنے قریب ہی آنے دیا ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکا کہ میں اس سے ٹیلی فونک رابطہ بھی منقطع کرلوں
دن میں جب تک میں ا سے ایک بار ٹیلی فون نہ کرلوں میرا گزارا نہیں ہوتا اورمیں آپ کوصراحت سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران میں اس کے لیے مشت زنی بھی کرتا ہوں ، میں نفساتی طور پر اس لڑکی میں گھر چکا ہوں جو اب میرے ذہن پر سوار ہوچکی ہے وہ مجھے ملنے کے لیے اتنی کوشش نہیں کرتی جتنی میں اس کے لیے کرتا ہوں لیکن جب میں اسے حاصل کرلیتا ہوں اسے چھونے سے ڈرتا ہوں کہ کہیں زنا کاری میں نہ پڑ جاؤ‎ں ۔
میرے لیے صرف ایک نفسیاتی مشکل ہے کہ میں اپنے آپ کوکس طرح اس لڑکی سےقطعی طور پرعلیحدہ اوردور رہنے پر راضی کروں ؟ باوجود اس کے کہ میری بیوی اس سےکئي درجہ خوبصورت اورافضل ہے اورمیری عفت کے لیے صراحتا کو‎ئ کوشش نہیں کرتی ۔
میں اپنے آپ سے مایوس ہوچکا ہوں مجھے کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ میں اپنی حالت کی اصلاح کس طرح کروں باوجود اس کے میرے سب دوست واحباب میرے بارہ میں یہ کہتے ہیں کہ یہ اچھے دل کا مالک اورلوگوں کے لیے اچھائی اوربھلائي پسند کرتا ہے ۔
لوگوں کے مصائب پر بہت ہی زيادہ آنسو بہانے اورمحسوس کرنے والا ہے ، میں لوگوں کے لیے ان سے بھی محبت اورپوری سعادت کے ساتھ زیادہ سے زيادہ بھلائی چاہتا ہوں اورانہیں علم بھی نہیں ہوتا یہ سب کچھ اللہ تعالی کی رضا اورخوشنودی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر عمل کرنے کے لیے کرتا ہوں ( اوروہ شخص جو چھپا کرصدقہ کرتا ہے حتی کہ اس کے بائيں ہاتھ کوعلم نہیں ہوتا کہ دائيں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ) ۔
آپ میرا تعاون فرمائيں تاکہ میں اپنے آپ کوراضي کرکے ایک صالح اوراچھا انسان بن سکوں ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ آپ کے غموں اورپریشانیوں کودور فرماۓ آمین ، آپ کے سوال کے جواب میں ہم مندرجہ ذیل نقاط پیش کرتے ہیں :

1- آپ کا شادی کرنے کے ساتھ شیطانی راستہ منقطع کردینا لائق تحسین اورشکر کے لائق ہے اوران شاء اللہ آپ کی خیر وبھلائي پر دلالت کرتا ہے ۔

2 - آپ کواپنی توبہ میں سچا ہونے اوراپنے گناہوں کونیکیوں میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس پہلی عورت کے بارہ میں سوچنا ہی ترک کردیں ، اوریہ بھی ضروری ہے کہ آپ شیطانی راستہ پر چلنے سے بھی گریز کريں اوراس کی سوچ ہی اپنے ذہن سے نکالیں چہ جائیکہ اس سے ٹیلی فون پر بات چیت اورپھر ملاقاتیں اورپھر اس سے بھی بڑھ کر جرم کرنا !

3 - جب آپ کوموت کی سوچ نے پہلی عورت چھوڑنے اورشادی پر آمادہ کیا ہے توضروری ہے کہ اب آپ اس کے بارہ میں سوچنا بھی ترک کریں کیونکہ موت ایک بہت ہی بہتر واعظ ہے جو کہ اللہ تعالی کی اطاعت میں ہر کمی کوتاہی کرنے والے اوراللہ تعالی کے غضب کودعوت دینے والے کام کے فاعل کے لیے اچھی نصحیت بن سکتی ہے ۔

یہی ایک چیز ہے جو کمی و کوتاہی کرنے والے کوعمل پر آمادہ کرتی ہے اور جبکہ موت نیکیاں لکھنا ختم کردیتی ہے ، یہی ہے جو منکرات اوربرائیاں کرنے والے کواس سے باز رہنے اوررکنے علم نہ ہونے والی چیزکوترک کرنے پرآمادہ کرتی ہے کہ اعمال کا انجام تواس کے اختتام کے ساتھ ہوتا ہے ۔

آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ صرف ایک ہی چيز میں سوچیں کہ آپ جب اس لڑکی سے ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوۓ اس کے لیے مشت زنی کررہے ہوں تو اگر اللہ تعالی اسی حالت میں آپ کی روح قبض کرلے توکیا ہوگا ؟ اورپھر کیا ہوگا کہ اگر اس سے معاشرت اورغلط کاری کرتے ہوۓ آپ کی روح قبض ہوجاۓ تو ؟

ہمارے بھائ :

آپ اس بارہ میں سوچیں کہ جب قیامت کے دن لوگوں کواٹھایا جاۓ گا تو کیا آپ اس پر راضی ہیں کہ آپ اپنی شرمگاہ کوہاتھ میں پکڑے ہوۓ اٹھیں ؟

کیا آپ اس حالت اور اس میں کوئی فرق محسوس کرتے ہیں کہ آپ کوسجدہ یا پھر تلبیہ کہتے ہوۓ اوریا پھر اللہ تعالی کا ذکر کرتے ہوۓ اٹھایا جاۓ ؟

4 - آپ نے جوصفات اپنے بارہ میں ذکر کی ہیں ان سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ میں خیروبھلائی بہت زیادہ پائی جاتی ہے ، لھذا آپ اس کے اجر کو سوء خاتمہ کے ساتھ ضائع ہونے سے بچائيں ۔

آپ اپنے آپ کوان فضائل کے اجروثواب سے اس طرح کے کبیرہ گناہ کے ساتھ محروم نہ کریں جو اللہ تعالی کے غضب کا باعث بنتے ہیں ۔

5 – آپ کوشادی کوئي نقصان نہيں دیتی آپ توشادی شدہ بلکہ ایک ایسی عورت سے - جیسا کہ آپ کہتے ہیں - جوپہلی لڑکی سے افضل اورخوبصورت بھی ہے توپھرآپ اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے کہ اس نے ایک حلال چيز سے بدل ڈالا ہے جہاں آپ اپنی شہوت پوری کرسکتے ہیں ؟

آپ اللہ تعالی کی تقسیم کردہ حلال چيز پر راضي کیوں نہیں ہوتے ؟

اس طرح کے حرام افعال میں آپ کے لیے گناہ بہت زیادہ ہے اگر آپ شادی شدہ نہ ہوتے توکچھ اوربات تھی ۔

آپ کنوارے نہیں بلکہ اللہ تعالی نے آپ پرنعمت کی ہے جس میں آپ حلال طریقے سے اپنی شہوت کوپورا کرسکتے ہیں ، توجب بھی آپ کوشیطان اس لڑکی کی سوچ میں ڈالے آپ اپنی بیوی کے پاس آئيں اوراس سے حاجت پوری کرلیں اورشیطان مردود سے اللہ تعالی کی پناہ میں آجائيں ۔

6 - اورہم آپ کوسب سے بہتر وصیت کرتے ہیں کہ آپ زیادہ سے زیادہ دعا کرتے رہیں ، رات کے آخری حصہ میں بیدار ہوں اوراپنے رب کے سامنے خشوع وخصوع کے ساتھ گریہ ذاری کرتے ہوۓ دعا کریں اوراپنے آپ کواللہ تعالی کے سامنے ذلیل کریں اوراس سے اس بیماری سے نجات طلب کریں

اورآپ اللہ تعالی سے دعا و التجا کریں اوراس کے سامنے گڑگڑائيں اس لیے کہ وہ سب سے بہتر ہے جس سے سوال کیا جاسکتا ہے وہ سبحانہ وتعالی اپنے سچے بندوں کو خالی ھاتھ نہیں لوٹاتا ۔

7 - کیا آپ کوعلم ہے کہ آپ کا اس لڑکی کے متعلق سوچنا اوراس سے ٹیلی فون پر بات چیت اورملاقات کرنے سے ممکن ہے کہ آپ کو شیطان پھر اسی طرف لے جاۓ جوآپ اس کے ساتھ پہلے کرتے رہے ہیں ؟

میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اپنے نفس کے دھوکہ میں نہیں آئيں گے کیونکہ صاحب شھوت کمزور ہوتا ہے ، اورجوبھی شیطان لعین کے ساتھ پہلے قدم پر ہی چل نکلے تووہ آخرتک اس کے پیچھے ہی چلتا رہتا ہے ۔

لیکن آپ یہ علم میں رکھیں کہ آپ اس طرح اللہ جبار کوغضب دلا رہے ہيں ، اوریہی نہیں بلکہ آپ شرک کے بعد اللہ تعالی کی سب سے بڑي نافرمانی میں بھی پڑ رہے ہیں ۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

میرے علم میں نہیں کہ قتل کے بعد زنا سے بڑا کوئی جرم اورگناہ ہوگا ، اس کی دلیل میں مندرجہ ذيل حديث پیش کی ہے :

عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے بڑا گنا کون سا ہے ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : کہ تواللہ تعالی کے ساتھ کسی اورکوشریک کرو حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔

عبداللہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوال کیا اس کے بعد کونسا ہے ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : کہ تواپنے بچے کوصرف اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھاۓ گا ۔

عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا :

کہ تواپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے ۔

تواللہ تعالی نے اس کی تصدیق اپنی کتاب قرآن مجید میں بھی نازل فرمادی : فرمان باری تعالی ہے :

{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔

اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے } الفرقان ( 68 – 70 ) ۔

آپ کویہ بھی علم ہونا چاہیے کہ زنا کا نفس پر اثرانداز ہونا ایک یقینی چیز ہے ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

زنا ایک ایسی چيز ہے جوہرقسم کے شرکوجمع کرلیتا ہے اورزانی شخص میں قلت دین ، ورع وتقوی کا خاتمہ ، مروؤت میں فساد ، قلت غیرت ، بھی پائی جاتی ہے ۔

آپ کسی بھی زانی کوصاحب ورع اورتقوی نہیں دیکھیں گے اورنہ ہی وہ معاھدہ وعھد کی پاسداری کرے گا ، اوربات چیت میں بھی آپ اسے سچانہیں پائيں گے ، اورنہ ہی وہ کسی دوست کی حفاظت کرے اوراس میں غیرت نام کی کوئی چيز نہیں مل سکے گی ، وہ اپنے اہل وعیال میں کے بارہ میں بھی غیرت کا مظاہرہ نہیں کرے گا ۔

دھوکہ وفراڈ ، جھوٹ اورخیانت ، قلت حیاء اورعدم مراقبہ اوراسی طرح حرام سے بچنے کی کوشش نہ کرنا اوردل سے غیرت کا خاتمہ اس کی خصلت اورعادات بن چکی ہوں گی : سب کچھ زنا کے موجبات سے ہے ۔

اورزنا کے موجبات میں سے کچھ یہ چيزیں بھی ہیں :

اللہ تعالی کی محرمات و قوانین کوتوڑ کراللہ تعالی کے غضب کوواجب کرتا ہے ۔

اگر ایسا شخص یہ کام کرکے کسی دنیاوی بادشاہ و حکمران کے سامنے جاۓ تووہ اسے بری ترین سزا دے گا اوراس کے ساتھ برا ترین سلوک کرے گا ۔

زنا کے موجبات میں سے یہ بھی ہے کہ : چہرہ کا بے نور اورسیاہ ہوجانا ، اوراس کے چہرہ پر دیکھنے والوں کے لیے غصہ اورناراضگی کا ظاہر ہونا ۔

یہ بھی ہے کہ : دل سیاہ ہوجاتا ہے اوراس کا نور جاتا رہتا ہے ، جس کی بنا پرچہرے کا نور بھی ختم ہوجاتا اوراس کی جگہ ظلمت وسیاہی چھا جاتی ہے ۔

اس سے فقر و تنگ دستی لازم ہوجاتی ہے ، اس کی وجہ سے فاعل کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اوروہ اپنے رب اوراوراس کے بندوں کی نظروں سے گر جاتا ہے ، اورزنا کی وجہ سے فاعل کی اچھی عفت وعصمت اورعدل ، انصاف اورنیکی و احسان جیسی صفات چھین لی جاتی ہیں ۔

اوراس کے مقابلہ میں اس کے مخالف صفات اورنام دے دیے جاتے ہیں مثلا فاسق وفاجر ، زانی اورخائن ، وغیرہ ۔

اورپھریہ بھی ہے کہ اس سے مومن کا نام اورصفت بھی چھن جاتا ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا ) صحیح بخاری اورصحیح مسلم ۔

اورزنا کے موجبات میں سے یہ بھی ہے :

وہ اپنے آپ کواس تنور میں رہنے کا باعث بناتا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھاتھا کہ اس میں زانی مردو عورت آک میں جل رہے ہيں ۔

یہ بھی ہے کہ : زانی سے پاکیزگی جسے اللہ تعالی نے عفت وعصمت والوں کا وصف قرار دیا ہے کا خاتمہ ہوکر اس میں خبث آجاتا ہے جو کہ زانیوں کی خصلت اور وصف ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

خبیث عورتیں خبیث مردوں اورخبیث مرد خبیث عورتوں کےلیے اورپاکپاز عورتیں پاکپاز مردوں اورپاکپازمرد پاکباز عورتوں کے لیے ہيں النور ( 26 ) ۔

اورپھر اللہ عزوجل نے تو ہر خبیث پرجنت حرام قرار کر رکھی ہے ، بلکہ اسے پاکبازوں کا ٹھکانہ ومستقر بنا رکھا ہے اس میں پاکبازوں کے علاوہ کوئی اورداخل ہی نہیں ہوسکتا ۔

اللہ جل جلالہ نے کچھ اس طرح فرمایا :

وہ جن کی جانہیں فرشتے اس حالت میں قبض کرتےہیں کہ وہ پاک صاف ہوں کہتے ہیں کہ تمہارے لیے سلامتی ہی سلامتی ہے اپنے ان اعمال کے بدلے تم جنت میں داخل ہوجاؤ جو تم کرتے رہے ہو النحل ( 32 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

اوروہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو ، تم خوشحال رہو تم اس میں ہمیشہ کے داخل ہوجاؤ الزمر ( 73 ) ۔

جنت میں داخلہ اورفرشتوں کی طرف سے سلام کے مستحق تووہ اپنی پاکبازی کی وجہ سے ٹھرے ، اورزانی تواخبث المخلوق ہيں وہ سب سے گندے ہیں جن کے لیے اللہ تعالی نے جہنم تیارکررکھی ہے جوکہ دار الخبیث ہے اوراس میں داخل ہونے والے بھی خبیث ہی ہیں ۔

توجب روزقیامت طیب اورخبیث کی تمیز ہوگی اورخبیث کوایک دوسرے پر رکھ کرجہنم میں ڈال دیا جاۓ گا توجہنم میں کوئي بھی پاکباز شخص داخل نہیں ہوگا اوراسی طرح جنت میں بھی کوئي خبیث اورگندہ شخص داخل نہيں ہوسکتا ۔

اورزنا کے موجبات میں وحشت بھی شامل ہے جسے اللہ تعالی زانی کے دل میں ڈال دے گا جس طرح کہ اس کے چہرہ پر بھی وحشت طاری ہوگی اسی طرح دل میں بھی وحشت ہوگی ۔

عفت وعصمت اختیار کرنے والے شخص کے چہرے پر مسکراہٹ اورنور ہوگا اوروہ ہشاش بشاش رہے گا اوراس کے دل میں انس و محبت رچی ہوئی ہوگی جوبھی اس کے پاس بیٹھے گا وہ اس سے مانوس ہوگا ۔

لیکن زانی کے چہرے پر وحشت اورسیاہی چھائی ہوگي اس کے پاس جوبھی بیٹھتا ہے وہ اسے بھی وحشت ہوتی ہے ۔

زنا کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ : زانی اوراس کے دوست واحباب کی سینوں سے ہیبت جاتی رہتی ہے ، اوروہ ان کے دلوں اورآنکھوں میں ایک حقیر سی چیز بن جاتا ہے بلکہ یہ ہیبت توبالکل ہی چھن جاتی ہے ۔

لیکن اس کے مقابلہ میں عفت وعصمت اختیار کرنے والے شخص کواللہ تعالی ہیبت اورمٹھاس سے نوازتا ہے ۔

زنا کے موجبات میں سے یہ بھی ہے : لوگ اسے خیانت کی نظر سے دیکھتے ہيں اوراس کی حرمت پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا ،اورنہ ہی اس کے بیٹے پرہی بھروسہ کیا جاتا ہے ۔

یہ بھی ہے کہ : اس کے جسم اورمنہ سے ایسی گندی بدبو پھوٹتی ہے جسے ہر سلیم العقل اورسلیم القلب محسوس کرتا ہے ، اوراگر اس بومیں لوگ شریک نہ ہوں تویہ بووالے کی نشاندہی کردے اوراسے پکارے ، لیکن جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے :

ہرایک کووہی لاحق ہے جومجھے ہے لیکن غیرت کی بنا پر وہ ایک دوسرے کوملامت کرتے رہتے ہیں ۔

زنا کے موجبات میں سے یہ بھی ہے :

اس سے سینہ میں تنگی پیدا ہوتی ہے اس لیے زانی کے ساتھ ان کے قصد اورارادہ کے برعکس معاملہ کیا جاۓ گا ، لھذا جوبھی اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کے ساتھ لذت اورعیش و عشرت حاصل کرے گا اسے اس کے مخالف چيز کے ساتھ سزا دی جاۓ گی ۔

اللہ تعالی کی خوشنودی اوررضا توصرف اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرکے کی حاصل کی جاسکتی ہے ، اوراللہ تعالی اپنی معصیت کوکبھی بھی خیرو بھلائی کا سبب نہیں بناتا ۔

اگرفاجر شخص کویہ علم ہوجاۓ کہ عفت وعصمت میں کتنی لذت اورسرور خوشی اورشرح صدر اورزندگی میں عیش و آسانی ہے تووہ یہ دیکھے کہ اس نے جولذت زنا سے اٹھائي ہے وہ اس لذت اورسرور سے جوفوت ہوچکی ہے کس قدر کم ہے اس نے اس تھوڑی سی لذت کے بدلے میں آخرت کا نفع اورکامیابی اوراللہ تعالی کا اجروثواب اوراس کی عزت و تکریم کوچھوڑ رکھا ہے ۔

اس کے موجبات میں یہ بھی ہے :

جنت میں وہ حوروں کے ساتھ نفع حاصل کرنے سے محروم ہوگا ، اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جب اللہ تعالی نےدنیا میں ریشمی لباس پہننے والے کو بطور سزا آخرت میں جنت کے اندر ریشمی لباس سے محروم کردیا اورشراب نوشی کرنے والے کوجنت میں ملنے والی لذیذ شراب سے محروم کردیا تواسی طرح جس نے دنیا میں غلط قسم کی فحش اورحرام تصاویر دیکھیں بلکہ جوبھی دنیا میں اس نے حاصل کیا اورحلال میں جس قدر توسع اختیار کیا روزقیامت اسی قدر اس کا حصہ تنگ ہوگا ۔

اوراگر اس نے کوئی حرام کام کیا اس کے بدلے میں اسی طرح کی چيز روز قیامت اس سے چھین لی جاۓ گی وہ اسے حاصل نہیں کرسکے گا ۔

اورزنا کے موجبات میں سے یہ بھی ہے کہ :

بلاشبہ زنا قطع رحمی اوروالدین کی نافرمانی اورحرام کمائی اورمخلوق پر ظلم وستم ، اورمال ودولت اوراہل وعیال کے ضیاع کی جرات پیدا کرتا ہے اوربعض اوقات اس کی بنا پرناحق قتل بھی کردیا جاتا ہے ، اوربعض اوقات اس کے لیے جادو اورشرک جیسی مہلک چيزوں سے معاونت لی جاتی ہے ۔

زانی کوعلم ہویا نہ زنا اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ اوراس سے قبل کچھ دوسرے گناہ اورمعصیت کا ارتکاب نہ کیا جاۓ ، اوراس کے بعد کئی قسم کے گناہ اورمعصیت پیدا ہوتے ہیں یہ جرم ارتکاب سے پہلےاور بعد میں معصیت کے لشکروں میں گھراہوا ہے ۔

یہ ایک ایسا جرم ہے جو دنیا وآخرت میں سب سے زيادہ شروبرائي کھینچنے والا اور دنیا و آخرت کی خیرو بھلائی کوسب سے زيادہ روکنےوالا ہے ، جب کسی بندے کے ساتھ چمٹ جاۓ تووہ اس کے ہتھکنڈوں میں پھنس جاتا ہے

ناصح لوگوں کے لیے اس سے بچاؤ بہت دشوار ہے ، اوراطباء اس کے علاج سے عاجز آچکے ہیں ، اس میں قیدشخص کا فدیہ بھی نہیں دیا جاسکتا ، اوراس سے قتل شدہ کودبانا مشکل ہے ، اللہ تعالی اس کے بدلے میں نعمتوں کوزائل فرمادیتے ہیں ۔

جب کوئي بندہ اس میں مبتلا ہوجاۓ تواللہ تعالی کی نعمتوں کوالوداع کہہ دیا جاتاہے ، یہ بہت زیادہ سریع الانتقال ہے اوروشیک الزوال ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

یہ اس لیے کہ اللہ تعالی کسی قوم پر نعمت کرکے اسے تبدیل نہیں کرتے جب تک کہ وہ اپنے آپ کونہ بدل لیں اوراللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے ۔

اوردوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورجب اللہ تعالی کسی قوم کی سزا کا ارادہ کرلیتا ہے تووہ بدلا نہیں کرتا اوراس کے علاوہ ان کے لیے کوئی کارساز نہیں ۔

یہ اس راستے میں چلنے والے کے لیے بعض ضرر اورنقصانات ہیں ۔ دیکھیں روضۃ المحبین ص ( 360 - 363 ) ۔

میرے بھائي ہم آپ کونصیحت کرتے ہیں کہ آپ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کیا کتاب " الجواب الکافی لمن سال عن الداوء الشافی " کا مطالعہ کریں ۔

اورآخر میں ہم اللہ تعالی سے آپ کے لیے دعا گو ہيں کہ وہ آپ کودینی اوردنیاوی عافیت سے نوازے اورآپ اپنے رب سے ملاقات سے قبل اپنے آپ کا محاسبہ کریں اوراس کا تدارک کریں ، اور اللہ تعالی ہی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد