الحمد للہ.
اول:
صحیح اور راجح موقف کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کا خطبہ منبر پر نہیں دیتے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری: (2/17) میں عنوان قائم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"باب ہے: عید گاہ کی جانب منبر کے بغیر جانے کے بیان میں" انتہی
پھر اس کے بعد یہ حدیث : (956)ذکر کی:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید
الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ جاتے اور سب سے پہلے عید نماز پڑھاتے اور سلام
پھیرنے کے بعد لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے، لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے اور نیکی کا حکم دیتے، پھر اس کے بعد اگر
کسی مہم پر صحابہ کرام کو روانہ کرنا ہوتا تو افراد چن کر روانہ کر دیتے، یا کسی
کام کا حکم دینا ہوتا تو حکم دے کر گھروں کی جانب واپس روانہ ہوتے" ابو سعید خدری
رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : لوگوں کا اسی پر عمل جاری و ساری رہا ، یہاں تک کہ میں
مدینہ کے گورنر مروان کے ساتھ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر عید گاہ گیا ،
جب ہم عید گاہ پہنچے تو وہاں کثیر بن صلت نے منبر بنایا ہوا تھا، تو مروان نے نماز
سے قبل منبر پر چڑھنا چاہا تو میں نے اس کے کپڑے سے کھینچا، تو مروان اپنا کپڑا
چھڑوا کر منبر پر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے لوگوں سے خطاب کیا، اس پر میں [ابو
سعید] نے کہا: "اللہ کی قسم ! تم نے دین بدل دیا ہے"
تو مروان نے کہا: "ابو سعید! جو باتیں تم جانتے ہو [ان کا دور ]اب نہیں رہا"
ابو سعید نے جواب دیا: "اللہ کی قسم ! جو باتیں میرے علم میں ہیں وہ ان سے کہیں
بہتر ہیں جو میرے علم میں نہیں ہیں!"
مروان نے کہا: "لوگ نماز کے بعد ہمارے خطاب کیلیے بیٹھتے نہیں تھے، اس لیے میں نے
اپنے خطاب کو ہی نماز سے پہلے کر دیا"
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عید گاہ میں منبر نہیں ہوتا تھا، اور نہ ہی مدینہ میں [مسجد نبوی کا ] منبر عید
گاہ لایا جاتا تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین پر کھڑے ہو کر خطاب کرتے
تھے، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
عید گاہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے سے پہلے بغیر اذان اور
اقامت کے نماز پڑھائی ، پھر بلال کا سہارا لیکر خطاب کیلیے کھڑے ہوئے اور لوگوں کو
تقوی الہی کا حکم دیا ، اطاعت گزاری کی ترغیب دلائی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت
فرمائی، پھر آپ خواتین کی جانب تشریف لے آئے، اور انہیں بھی وعظ و نصیحت فرمائی"
متفق علیہ" انتہی
"زاد المعاد" (1/ 429)
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" عیدین ، حج اور دیگر خطبوں کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد نبوی میں
اکثر خطاب منبر پر ہوتے تھے۔" انتہی
"فتح الباری" (3/ 403)
مزید کیلیے سوال نمبر: (49020)
دوم:
ایسے جزوی مسائل کو اختلافات ، تصادم، اور مسلمانوں میں پھوٹ کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے، اور نہ ہی جلد بازی کرتے ہوئے ان پر بدعت کا فتوی لگانا چاہیے، اگر یہ عمل بدعت ہوتا تو ابو سعید رضی اللہ عنہ اس پر ضرور قدغن لگاتے جیسے کہ انہوں نے مروان کے نماز سے پہلے خطبہ دینے پر قدغن لگایا۔
یہ بات درست اور ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر عید گاہ لے جانے کا حکم نہیں دیا، تاہم امید ہے کہ اس میں گنجائش ہو گی، خصوصاً اگر عید گاہ میں منبر کی ضرورت ہو تو وہاں گنجائش کی ضرورت مزید بڑھ جائے گی۔
ابن بطال رحمہ اللہ "شرح البخاری" (2/ 554) میں کہتے ہیں:
"اشہب مجموعہ میں کہتے ہیں: عیدین کے دن منبر عید گاہ لے جانے کی گنجائش موجود ہے،
چاہے تو منبر عید گاہ لے جائیں اور اگر چاہے تو نہ لے کر جائیں" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"عید کی نماز میں امام کیلیے منبر پر خطاب کرنا مسنون ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"کچھ علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ یہ سنت ہے؛ کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی
حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید کے دن خطاب کیا اور پھر
نیچے اتر کر خواتین کے پاس گئے، اب ان اہل علم کا کہنا ہے کہ: نیچے اترنے کا عمل
کسی اونچی جگہ سے ہی ہوتا ہے، چنانچہ اسی پر عمل جاری و ساری ہے۔
جبکہ دیگر اہل علم کہتے ہیں کہ عید گاہ میں منبر نہ لیکر جانا زیادہ بہتر ہے۔
تاہم عید گاہ میں منبر لے جانے یا نہ لے جانے ہر دو صورت کی گنجائش ہے، ان شاء اللہ"
انتہی
" مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (16 /350)
واللہ اعلم.