منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

کیا کسی کمپنی کو اپنی طرف سے حج بدل کیلئے رقم دے سکتی ہے؟ اسے نہیں معلوم کہ وہ حج صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں یا نہیں؟

سوال

سوال: میں ایک دائمی مرض میں مبتلا ہوں، مرض کی ابھی تک تشخیص نہیں ہو سکی، چنانچہ علاج کا طریقہ بھی دریافت نہیں ہو سکا، میں نے سنا ہے کہ مکہ میں ایک کمپنی ہے جو مصر کی ایک کمپنی کیساتھ مل کر فوت شدگان اور بیماروں کی طرف سے حج بدل اور عمرہ بدل کی خدمات فراہم کرتی ہے، لیکن مجھے ابھی تک ان پر کوئی اعتماد نہیں ہے کہ واقعی وہ حج اور عمرہ بدل کرتے بھی ہیں یا نہیں؟ تو کیا میں حج بدل کے بارے میں ان سے رجوع کر سکتی ہوں اگرچہ مجھے ان پر ابھی تک اعتماد نہیں ہے۔
اور اگر معاملہ حقیقت سے عاری ہو یعنی وہ حج صحیح نہ کرتے ہوں تو کیا مجھے اس کا ثواب ملے گا؟ یا میرے ذمہ حج باقی رہے گا؟ اور کیا میں ایک سے زیادہ بار عمرہ یا حج بدل کیلئے ان سے رجوع کر سکتی ہوں؟ اور کیا حج یا عمرہ بدل صرف فرض حج میں ہی ہوتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ رب  العزت اور عرش عظیم کا پروردگار اپنے فضل و کرم کے صدقے آپکو بیماری سے شفا یاب فرمائے،  اور آپ کی کوئی بیماری باقی نہ چھوڑے۔

ناقابل شفا مرض میں مبتلا شخص کسی دوسرے شخص کو فریضہ حج ادا کرنے کیلئے اپنا نمائندہ بنا سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ نمائندہ بننے والے شخص نے اپنی طرف سے حج کیا ہوا ہو۔

مزید کیلئے دیکھیں سوال نمبر: (83765 ) اور (111794)

دوم:

ان کمپنیوں کے بارے میں اصل تو یہی ہے کہ یہ حج و عمرہ بدل کی خدمات فراہم کرتے ہوئے امانت داری سے کام لیتی ہیں؛ کیونکہ ان کی کمپنی جاری و ساری رہنے کیلئے امانت داری کا ہونا اساسی  عنصر ہے، اور ان کے مالکان بھی اس بات کو یقینی بنانے کیلئے خوب جد و جہد کرتے ہیں، یہ عام سی بات ہےکہ کسی بھی پراجیکٹ پر کام کرنے والے لوگ ہر اعتبار سے اپنے پراجیکٹ کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ لوگوں کی توجہ حاصل کریں اور ان کے بارے میں بد گمانی سے بچیں، کہ کہیں لوگ انہیں چھوڑ کر کسی اور کی طرف متوجہ نہ ہو جائیں۔

اصولی طور پر کم از کم ان کے بارے اتنا تو لازمی کہا جا سکتا ہے۔

لیکن پھر بھی آپ کیلئے ضروری ہے کہ آپ اپنی عبادت کیلئے محتاط قدم اٹھائیں، اور فریضہ حج کی ادائیگی کیلئے  صرف اسی شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجیں جس کے بارے میں آپکو علم ہو، یا آپ کو غالب گمان ہو کہ وہ کما حقہ حج ادا کرے گا، چاہے یہ بات آپ خود تحقیق کر کے جانیں یا ان کے بارے میں جاننے والے لوگوں  کی شہادت پر یقین کریں۔

لہذا اگر آپ اپنی طرف سے مکمل تصدیق کر کے اس نتیجہ پر پہنچیں کہ آپ کی طرف سے حج بدل کرنے والا  امانت دار ہے، تو اس کے بعد آپ کو اس کی تاک میں لگے رہنا ضروری نہیں ہے، کہ آپ اس بات کو یقینی طور پر ثابت کرنے کیلئے  تحقیق شروع کر دیں کہ واقعی اس نے ذمہ داری ادا کی ہے یا نہیں، کیونکہ اصولی طور پر  جو لوگ ایسے کام کرتے ہیں وہ امانت دار ہوتے ہیں، خصوصا عبادات کے معاملے میں، تاہم اگر کوئی ایسی بات ملے جس سے ان کی امانت داری میں خلل پیدا ہو تو  پھر انہیں امانتدار نہیں سمجھا جائے گا۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"۔۔۔ اس قسم کے مسائل میں اصل یہی ہے کہ جو شخص یہ ذمہ داری لیتا ہے اسے ادا بھی کرتا ہے، عام طور پر ایسے ہی پایا جاتا ہے،  اگرچہ ان میں سے کچھ کو خیانت  کا الزام بھی دیا جا سکتا ہے، تاہم اکثریت  یہی ہے کہ ذمہ داری ادا کی جاتی ہے، لیکن  پھر بھی اگر کوئی احتیاط سے کام لیتے ہوئے  مزید تاکید کر لے تو یہ بہتر اور اچھا ہے، اور اس کا تعلق  مشکوک چیزوں کو چھوڑ کر یقینی امور اپنانے سے ہوگا" انتہی
http://ar.islamway.net/fatwa/43807

بہر حال ہم آپکو ایسی کسی کمپنی سے رجوع کرنے کا مشورہ نہیں دینگے جن کے بارے میں آپکو کچھ بھی علم نہیں ہے، اور نہ ہی اس کمپنی کے بارے میں کسی معتبر ذریعے سے توثیق اور اعتماد کا اشارہ ملتا ہو۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ہر ملک اور شہر سے لوگ سعودی عرب میں موجود ہیں  تو اس لئے کوشش کریں کہ آپ اپنے آس پاس کسی ایسے شخص کو تلاش کریں جسے آپ جانتی ہوں اور وہ آپ کی طرف سے حج کرے، یا وہ کسی معتبر اور معتمد شخص کی حج بدل کیلئے ذمہ داری لگائے ۔

سوم:

جب مریض کیلئے اپنی طرف سے حج یا عمرہ بدل کروانا شرعی طور پر درست ہے تو مریض شخص کو اپنی طرف سے حج کے تمام ارکان ادا کرنے والے شخص کو ہی  نمائندہ بنانا چاہیے، لہذا کسی جاہل اور خیانت کار کو حج بدل کی ذمہ داری مت دے۔

چنانچہ اگر اس نے کسی  شخص کو اپنا نمائندہ بنایا اور بعد میں  علم ہو کہ وہ شخص امانتدار نہیں تھا، تو پھر حج فریضہ ہونے کی صورت میں  یہ معلوم ہوا کہ اس نے کما حقہ صحیح انداز سے حج نہیں کیا ، اور ذمہ داری کو بالکل اہمیت نہ دی تو ایسے شخص  کو حج کا مکمل خرچہ ادا کرنا ہوگا، یعنی وہ شخص اپنے موکل سے وصول کردہ تمام رقم واپس کریگا، پھر یہ موکل کسی امانتدار کو دوبارہ  اپنی طرف سے آئندہ سال حج بدل کرنے کیلئے یہ رقم دیگا۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"ایک شخص نے کسی کو امانتدار  سمجھ کر اپنی والدہ کی طرف سے حج کرنے کیلئے رقم دی،  پھر اسے یہ علم ہوا کہ یہ شخص تو اچھے کام نہیں کرتا، اب وہ اس بارے میں جاننا چاہتا ہے"
تو انہوں نے جواب دیا:
"حج بدل کروانے کیلئے امانتداری، دینداری  جانچ لینا ضروری امر ہے، لہذا اگر مذکورہ حج بدل فریضہ تھا تو اس کے بدلے میں ایک اور حج کروائے ، اور اگر یہ کسی کی طرف سے وصیت  تھی کہ اس کی طرف سے حج بدل  کروایا جائے ، اور اس شخص نے غیر امانتدار ہاتھوں میں حج بدل کیلئے رقم تھما دی تو اس کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ اس کے بدلے میں ایک اور شخص کو آئندہ سال  حج بدل کروائے؛ کیونکہ اس نے حج بدل کروانے کیلئے تساہل سے کام لیا اور احتیاط سے کام نہیں لیا، اور اگر نفلی حج بدل تھا ،  کسی کی وصیت وغیرہ نہیں تھی ، بلکہ موکل کی طرف سے اجر و ثواب کا حصول  مقصود تھا تو اس پر کچھ نہیں ہے، تاہم اگر وہ خود چاہے تو کسی دوسرے شخص کو حج کروا سکتا ہے" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (16/ 420-421)

چہارم:

نفلی حج یا عمرہ کیلئے کسی کو اپنا نائب بنانے کے بارے میں اہل علم کی متعدد آراء ہیں، چنانچہ کچھ اہل علم نفل حج بدل کو جائز قرار دیتے ہیں، بشرطیکہ موکل  بڑھاپے یا دائمی بیماری  میں مبتلا ہو، اور حج بدل کرنے والے نے اپنا فریضہ حج پہلے سے ادا کیا ہوا ہو۔

یہ موقف دائمی فتوی کمیٹی اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم نفلی حج بدل سے منع کرتے ہیں، یہی موقف ابن عثیمین رحمہ اللہ سے مشہور ہے۔

مزید کیلئے دیکھیں سوال نمبر: (41732)

تاہم شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ایک ایسا فتوی بھی موجود ہے جس میں انہوں نے ایک لڑکے کو اس کے والد کے مطالبے پر  نفلی حج بدل کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔

چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"میرے والد نے مجھ سے اس سال یہ مطالبہ کیا ہے کہ میں ان کی طرف سے نفل حج کروں، کیونکہ انہوں نے پہلے بھی ایک حج کیا ہوا ہے، اور ان کی مالی حالت اچھی ہے، لیکن جسمانی طور پر حج کرنے کی استطاعت نہیں ہے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ یہ واضح رہے کہ میں نے اپنا فریضہ حج ادا کیا ہوا ہے۔"

تو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے جواب دیا:
"اس صورت حال میں حج کرنے  پر کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
"اللقاء الشهری" (62/ 21) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب