الحمد للہ.
اول:
عید پر قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے، اور اسکے لئے شرط لگائی جاتی ہے کہ قربانی کرنے والا صاحب استطاعت ہو، اور قربانی کے جانور کی رقم اپنے اور اہل خانہ کی ضروریات سے اضافی ہو۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (70291) کا مطالعہ کریں۔
چنانچہ جس شخص کے پاس قربانی کے جانور کی قیمت اپنے اور اہل خانہ کی ضروریات سے اضافی طور پر موجود نہ ہو تو اس پر قربانی نہیں ہے۔
دوم:
اگر ایک ہی خاندان کے لوگ رہائش اور نفقہ میں اکٹھے ہوں تو انہیں ایک ہی قربانی کافی ہوگی۔
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"اگر خاندان کے افراد زیادہ ہوں، اور سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، تو ان سب کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہوگی، اور اگر ایک سے زائد قربانی کریں تو یہ افضل ہے"انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (11/ 408)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد کوایک ہی قربانی کافی ہے، چاہے انکی تعداد زیادہ ہی کیوں نہ ہو، [مثلاً] سب بھائی ایک جگہ ہیں اور اکٹھے کھانا تیار ہوتا ہے، انکا مکان ایک ہی ہے، تو انکی قربانی بھی ایک ہی ہوگی، چاہے سب کی متعدد بیویاں ہوں، اسی طرح والد کا اپنے بیٹوں کیساتھ حکم ہے، چاہے اسکے کچھ بیٹے شادی شدہ ہوں، تو انکی قربانی بھی ایک ہی ہوگی" انتہی
"مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين" (25/ 43)
مزید کیلئے سوال نمبر: (96741) کا جواب ملاحظہ فرمائیں
مذکورہ بالا وضاحت کے بعد اگر آپ اپنے والد کیساتھ ایک ہی مکان میں رہتے ہیں ، تو آپکے والدین سمیت سارے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہو جائے گی۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
اگر میرے والدین کے ساتھـ میری بیوی ایک ہی گھر میں رہتی ہو ، تو کیا عید الاضحی میں میرے اور میرے والدین کی جانب سے ایک قربانی کرنا کافی ہوگا یا نہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر حقیقت اسی طرح ہو جیساکہ آپ نے :والد اور اس کے بیٹے کا ایک ہی گھر میں ہونے کا ذکر کیا ہے تو ایک ہی قربانی آپ کی اور آپ کے والد و والدہ اور آپ کی بیوی کی طرف سے کافی ہے، اور تم دونوں [ باپ ، بیٹے] کے اہل خانہ کی جانب سے سنت کی ادائیگی کے لئے ایک قربانی کافی ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (11/ 404)
اور اس بات میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ اپنے والد کو اپنی طرف سے اور تمام اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرنے کیلئے ذمہ داری سونپتے ہوئے قیمت ادا کردیں، تا کہ وہ سب کی طرف سے قربانی کریں۔
ایسے ہی آپ انہیں قربانی کی قیمت تحفۃً بھی دے سکتے ہیں، تا کہ وہ اس قیمت سے اپنی طرف سے اور انکے ساتھ رہنے والے اہل خانہ [جن میں آپ بھی شامل ہیں]کی جانب سے قربانی کریں، اگرچہ افضل یہی ہے کہ قربانی آپکی طرف سے ہو، کیونکہ اصل میں مال آپکا ہے، اور والد صاحب کو جتنی ضرورت ہو آپ انہیں دے دیں۔
اور اگر آپ اپنے گھر میں الگ رہتے ہو، اور آپکا والد الگ گھر میں رہتاہے تو پھر آپ اپنی طرف سے اور والد کی طرف سے ایک قربانی نہیں کرسکتے، چنانچہ آپ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کریں، جبکہ آپکے والد پر استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں ہوگی۔
اور اگر آپ ایک بار انہیں قربانی کے پیسے دے دیا کریں، اور دوسری بار آپ خود قربانی کر لیا کریں تو یہ اچھا ہوگا، اور اس طرح سے دونوں مصلحتیں جمع ہوجائیں گی۔
مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (41766) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
واللہ اعلم .