بدھ 17 جمادی ثانیہ 1446 - 18 دسمبر 2024
اردو

بیوی سے سابقہ گناہوں کے بارے میں پوچھنے کاحکم

212785

تاریخ اشاعت : 02-06-2014

مشاہدات : 9779

سوال

کیا مجھے اپنی بیوی سے ان گناہوں کے بارے میں پوچھنے کی اجاز ت ہے جو اس نے مجھ سے دور رہتے ہوئے کئے تھے، میری بیوی چار سال قبل مسلمان ہوئی ہے، اور وہ اسوقت یورپ میں رہتی ہے، کیونکہ اس نے شادی سے قبل یہ شرط لگائی تھی کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے یورپ ہی میں رہے گی ، میں نے اسکی یہ شرط مان لی کہ وہ اپنے غیر مسلم گھر والوں کے ساتھ رہے گی، اور میں نے اس پر یہ شرط لگائی تھی کہ وہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے گناہوں سے بھی پرہیز کریگی، نمازوں کی پابندی، اور تمام دینی شعائر کو بجا لائے گی، گذشتہ ماہ میں نے اس سے یورپین ملک میں رہتے ہوئے اسکے گناہوں کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کوئی بھی بات بتلانے سے انکار کردیا، اور کہنے لگی: "میں اپنے گناہوں سے پردہ نہیں اٹھانا چاہتی، اور آئندہ میں کبھی بھی گناہ نہیں کرونگی" کونسا گناہ؟ مجھے نہیں معلوم!
اس بارے میں آپکی کیا رائے ہے؟ کیا اُسے مجھ سے اپنے گناہوں کو چھپانے کا حق ہے؟ اور کیا مجھے جب بھی شک ہو تو اُسے اس بارے میں پوچھ گوچھ کرسکتا ہوں؟ ذہن نشین رہے کہ میں یورپ نہیں جاسکتا، اور میں یہاں مصر میں اسکی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کر رہا ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

بیوی کے گناہوں کے بارے میں پوچھنا آپکا حق نہیں ہے، چاہے گناہ ماضی بعید میں کبھی کیا ہو، یا ابھی ماضی قریب میں سرزد ہوا ہو، اسی طرح آپ گناہ کی تفصیلات جاننے کیلئے بھی اس سے بات نہیں کرسکتے، اور نہ ہی آپکی بیوی کیلئے جائز ہے کہ وہ اسکی تفصیلات بتلائے؛ کیونکہ آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے، اور سب سے بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں، اور جو اپنے گناہ سے توبہ کرلے گویا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے کہ : (ان گناہوں سے بچو، جن سے اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے، اور اگر کوئی ان گناہوں میں سے کسی کا ارتکاب کر لے تو گناہ پر اللہ کی ستر پوشی کو رہنے دے، اور اللہ سے توبہ کر لے)

اسے حاكم نے " المستدرك على الصحيحين " (4/425) میں روایت کیا ہے اور البانی نے " صحيح الجامع "میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ہر مسلمان پر گناہوں کی پردہ پوشی واجب ہے، خاص طور پر اپنے گناہوں کی پردہ پوشی ضروری ہے" انتہی

" التمہيد " (5/337)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (اعلانیہ گناہ کرنے والوں کے علاوہ میری امت کے سب گناہگاروں کو معاف کردیا جائے، اور اعلانیہ گناہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی رات کو غلط کام کرے اور اللہ تعالی اسکے گناہ پر پردہ ڈالے رکھے، لیکن وہ خود صبح اٹھتے ہی کہے: اے فلاں! میں نے رات کو یہ اور وہ کارستانیاں کیں، حالانکہ اللہ تعالی نے اسکی پردہ پوشی فرمائی تھی، لیکن اس نے خود ہی پردہ چاک کردیا)

بخاری ( 5721 ) ، اورمسلم ( 2990 ) نے اسے روایت کیا ہے۔

ایک مؤمن کو چاہئے کہ حسن ظن اور اچھائی کی امید غالب رکھے، بے سر وپا شکوک وشبہات میں پڑنے کی کوشش نہ کرےجیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا) اے ایمان والو! کثرت سے بدظنی مت کیا کرو، کیونکہ کچھ بد گمانیاں گناہ ہوسکتی ہیں، اور جاسوسی بھی نہ کرو۔ الحجرات/12

اگر تمہیں اس لڑکی میں کوئی شک ہے ، یا تمہیں اس کے ساتھ رہنا دشوار نظر آرہا ہے تو فوراً اسے چھوڑ دو، جاسوسی اور ٹوہ مت لگاؤ، اللہ اور اسکے درمیان معاملات کو واشگاف کرنے کی کوشش مت کرو۔

بخاری (4849) ، اورمسلم (2563) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹ بات ہے اور نہ ہی تم ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب تلاش کرو اور حرص نہ کرو اور حسد نہ کرو اور بغض نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ)

اگر ہم آپکی بات کی تصدیق کر بھی دیں تو اس مسئلہ میں مرکزی کردار آپ ہی ہو، کیونکہ آپ نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ بیوی آپ سے دور رہے، وہ بھی مغربی و کفار کے ملک میں پھر اتنی چھوٹی عمر میں ؛ کہ جہاں پر اسکی نگرانی کرنے والا ہے اور نہ ہی اطاعت پر مدد کرنے والا۔

اگر آپ اسے اُپنے عقد میں رکھنا چاہتے ہو تو آپ پر ضروری ہے کہ ماضی کے صفحات کو پھاڑ دیں، اور اپنی پوری جانفشانی کیساتھ ان حالات میں پیدا ہونے والے خلل کی اصلاح کریں،کہ آپ اسے اپنے پاس آنے پر قائل کریں، اور جب امتحانات کے دن قریب ہوں تو جا کر امتحان دےد ے،یا پھر آپ اسکے پاس چلے جائیں اور اسکی شرط کے مطابق پڑھائی کی مدت تک اسکے ساتھ رہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ دونوں کے درمیاں اپنی رضا اور پسندیدہ طریقے کے مطابق جلد از جلد وصال فرمائے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب