سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اہل میت کیلئے ہوٹل سے کھانا منگوانے سے سنت پر عمل ہو جائے گا؟

213425

تاریخ اشاعت : 12-01-2015

مشاہدات : 7048

سوال

حفظ قرآن کی کلاس میں کچھ بہنوں نے اپنی سہیلی کی والدہ کی وفات پر اہل میت کیلئے اکٹھے ہوکر کھانے کا انتظام کیا، اس کیلئے انہوں نے ایک ہوٹل سے کھانا تیار کروا کر ڈلیوری کروادیا، ہوٹل کو آرڈر دینے کے بعد ہمیں ایک معلمہ نے کہا: "اہل میت کو آجکل کھانا بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ "ڈلیوری"سروس کی وجہ سے اہل میت کیلئے کھانا حاصل کرنا بہت آسان ہوچکا ہے، اور اگر کھانا لازمی بھیجنا ہی ہے تو گھر میں بنا کر بھیجا جائے، کیونکہ اس سے ثواب زیادہ ملے گا"
سوال یہ ہے کہ: کیا ڈلیوری کے ذریعے کھانا ارسال کروا کر ہم نے سنت [یعنی: آل جعفر کیلئے کھانا تیار کرو]پر عمل کر لیا؟ یا اس کیلئے لازمی ہے کہ کھانا ہوٹل کی بجائے ہم خود بنائیں ، اور کیا ہمارے ثواب میں کمی واقع ہوگی ؛ کیونکہ ہم نے خود کھانا تیار نہیں کیا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اہل میت  کیلئے اقرباء، پڑوسیوں، اور دوستوں کی طرف سے کھانا تیار کرنا مستحب ہے، کیونکہ سوگواران کو کھانا بنانے کی فرصت نہیں ملتی ، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی فرمایا: (جعفر کے اہل خانہ کیلئے کھانا بناؤ، انہیں [فوتیدگی] نے [کھانے کے بندو بست سے]مشغول کردیا ہے )
ترمذی (998) نے اسے روایت کیا اور حسن کہا ہے، اور ابو داود (3132) ، ابن ماجہ (1610) نے بھی روایت کیا ہے، اور اسے  ابن كثير و شیخ البانی نے بھی حسن قرار دیا ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
"اہل میت کے پڑوسیوں، اور رشتہ داروں سے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جس دن فوتیدگی ہو اس دن اور رات کا سیر شکم کھانا اہل میت کیلئے تیار کریں، بلاشبہ یہ سنت ہے، اور نیک نامی کا باعث ہے، ہم سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اہل خیر یہ کام کرتے  آئے ہیں"انتہی
" الأم " (1/ 317)

اور شوکانی رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ:
"اس حدیث میں اہل میت کیلئے کھانے پینے کا بندوبست کرنے کا شرعی حکم ہے، کیونکہ انہیں اپنی مصیبت کی وجہ سے اپنی بھی ہوش نہیں ہوتی"انتہی
" نيل الأوطار " (4/ 118)

اور اس سنت پر آپ کسی بھی طریقہ سے اہل میت کیلئے کھانا پہنچا کر عمل کرسکتے ہیں، چاہے آپ گھر میں کھانا بنائیں، یا ہوٹل وغیرہ سے آرڈر دیکر تیار کروائیں؛ کیونکہ یہاں پر اصل مقصد  انہیں کھانا کھلانا، اور انکے ساتھ اظہار ہمدردی ہے، اور اس مقصد کیلئے آپ گھر کے بنے ہوئے کھانے یا بازار سے خریدے گئے کھانے میں فرق نہیں کرسکتے، الّا کہ کسی علاقے کا کوئی خاص عرف ہو تو اس عرف کا خیال کرنا چاہئے، مثلا : کسی علاقے کے لوگ ہوٹل کا کھانا ایسی صورت حال میں ارسال کرنا اچھا نہیں سمجھتے، وغیرہ وغیرہ

دوم:
یہ کہنا کہ "اہل میت کیلئے آجکل کھانا بنانے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ ہوٹل موجود ہیں، اور ماضی کی طرح آج کے دور میں میت  کیساتھ اتنی زیادہ مصروفیت بھی نہیں ہوتی" کوئی جچی تُلی بات نہیں ہے، اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

1- حدیث مبارکہ میں [کھانا بنانے کا]شرعی حکم "اہل میت کی میت کیساتھ مصروفیت"  کی بنا پر دیا گیا ہے، اور یہ مصروفیت چاہے بدنی ہو یا ذہنی ہوٹل بننے سے پہلے بھی تھی، اور بعد میں بھی ہے، اس لئے ہوٹلوں کے بننے سے اس حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا؛ کیونکہ انسانی نفسیات کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو مرگ ہونے کی وجہ سے کمزور ہو ہی جاتی ہے، خصوصی طور پر ایسی صورت میں جب مصیبت سنگین قسم کی ہو۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ  کہتے ہیں: "اہل میت کیلئے کھانا تیار کرنا مستحب ہے، انکا تعاون کرتے ہوئے، کھانا تیار کرکے انکی طرف بھیج دیا جائے گا، تا کہ انکے دل کو دلاسہ ملے؛ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اہل میت سوگ اور تعزیت کیلئے آنے والوں میں اتنے مشغول ہوجائیں کہ انہیں اپنے لئے کھانے کا بندو بست کرنے کیلئے موقع ہی نہ ملے"انتہی
" المغنی " (3/496)

2-  اہل میت کو جس طرح کھانا بنانے کی فرصت نہیں  ملتی اسی طرح ہوٹل سے رابطہ کرکے مطلوبہ کھانے کا آرڈر  دینے کی بھی عام طور پر اُنہیں فرصت نہیں ہوتی، اور بسا اوقات ایسی غمگین حالت میں اہل میت ہوٹل سے  کھانا منگوانے  پر تنگی محسوس بھی کرسکتے ہیں، بلکہ لوگ بھی انکے اس کام پر نکتہ چینی کرینگے، اور یہ سمجھے گے کہ یہ لوگ اپنی میت  کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے، ایسا حقیقت میں ہوتا بھی ہے، اور کہا بھی جاتا ہے۔

3- اگر یہ حکم اہل میت کی کھانا بنانے کی استطاعت پر مبنی ہوتا ؛ تو علمائے کرام اس حکم سے نوکر چاکر والے مالدار اور صاحب حیثیت افراد کو اس سے مستثنی ضرور کرتے، اور علمائے کرام عزیز و اقارب اور دوست احباب کو انکے لئے کھانا تیار کرنے کی ترغیب دلانے کی بجائے ، ان لوگوں سے یہ مطالبہ کرتے کہ جو نوکر  میت کی وجہ سے مصروف نہیں ہیں انہیں کھانے کی تیاری کا حکم دیا جائے۔

4- پڑوسیوں ، عزیز و اقارب اور دوست احباب کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنے کا ایک اور مقصد بھی ہے جو صرف کھانا ہی نہیں بلکہ سماجی رابطے کو تقویت بخشنا، اور اہل میت کو یہ باور کروانا بھی مقصود ہے کہ کھانے کا انتظام کرنے والے لوگ بھی آپکے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔
اسی لئے ابن العربی  رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ضرورت کے وقت ہاتھ بٹانے کا اصل مقصد ہی یہ ہے۔۔۔ اپنے گھریلو سربراہ کے فوت ہوجانے پر انکی دگر گوں صورت حال کا تقاضا تھا کہ انکی ضروریات پوری کرنے کی ذمہ داری لے لی جائے"انتہی
" عارضۃ الأحوذی" (4/219)

5- حدیث میں مذکور مشغولیت سے جیسے بدنی مصروفیات  مراد  ہیں اسی طرح ذہنی تناؤ بھی مراد ہے، کیونکہ اہل میت ذہنی طور پرمیت کی وجہ سے شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں، جو انہیں کھانا بنانے، یا ہوٹل سے منگوانے یا نوکروں کو کھانے کا حکم کرنے سے روکے رکھتا ہے۔
عینی رحمہ اللہ  کہتے ہیں: "اس حدیث سے میت  موجود ہو، یا میت کی صرف خبر آئی ہو تو ایسی صورت میں اہل میت کیلئے کھانا بنانے کا استحباب ثابت ہوتا ہے، کیونکہ سوگواران میت کی خبر یا میت کیساتھ مصروف   ہوتے ہیں، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ انہیں  ایک ایسا معاملہ آ پہنچا ہے کہ جس نے انہیں مصروف کردیا ہے، یعنی کھانے وغیرہ سے مشغول کردیا ہے"انتہی
" شرح سنن أبو داود " (6/ 59)

ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ: یہ بات بھی ضروری ہے کہ کھانے کا بندو بست شرعی حدود میں رہے، اور معقول انداز سے کھانے کا انتظام کیا جائے، فخر اور دکھلاوے سے دور ہو۔

سیوطی رحمہ اللہ  کہتے ہیں :
"یہ معاملہ ابتدا میں مسنون طریقے پر جاری  وساری تھا، لیکن بعد میں اسے بدعت بنا دیا گیا  کہ اسے فخر اور دکھلاوے میں شامل کردیا گیا، جیسے کہ آج کل ہو رہا  ہے؛ کیونکہ لوگ اہل میت  کے ہاں جمع ہوجاتے ہیں، اور اہل میت کے رشتہ دار پر تکلف کھانا بھیجتے ہیں، جسکی وجہ سے اس عمل میں بھی بدعت سرائیت کر  چکی ہے"انتہی
" شرح سنن ابن ماجہ" ( ص: 116)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب