الحمد للہ.
شریعت میں عام قاعدہ ہے کہ : "جو شخص کسی واجب کو ادا کرنے سے عاجز ہو جائے تو واجب ساقط ہو جاتا ہے، تاہم جس قدر واجب ادا کرنے کی استطاعت ہو، اسے بجا لانا ضروری ہوتا ہے"، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے: (فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)بقدرِ استطاعت اللہ سے ڈرتے رہو ۔ [التغابن: 16]
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کرو) متفق علیہ
اس بنا پر گونگااور بہرافرد جو پڑھ نہیں سکتا، اس سے زبانی عبادات ساقط ہونگی، اور اگر تسبیح یا ذکر الہی کسی حد تک کر سکتا ہو تو پھر قراءت کی جگہ پر تسبیح اور ذکر الہی کریگا۔
اور اگر تسبیح وغیرہ بھی نہیں کر سکتا، اور نہ ہی اس کیلئے سیکھنا ممکن ہے تو قراءت کرنا اس سے ساقط ہو جائے گا، چنانچہ اس پر تلاوت کے بدلے میں کچھ اور پڑھنا لازمی نہیں ہوگا، اور اگر گونگا شخص تکبیر کہہ سکتا ہو تو تکبیر کے موقع پر تکبیر کہنا لازمی ہوگا۔
اور اگر یکسر کسی چیز کا تلفظ کرنا اس کیلئے ناممکن ہو تو نماز کے تمام زبانی اعمال اس سے ساقط ہو جائیں گے، اور ایسا شخص قیام ورکوع، اور سجود پر مشتمل عملی ارکان بجا لائے گا۔
عام لوگوں کی طرح نماز کی نیت اپنے دل میں کر کے بغیر تلاوت کے کھڑا رہے ، پھر رکوع اور سجدہ کرے، اور زبان سے کچھ پڑھنا اس کیلئے ضروری نہیں ہوگا۔
دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا:
"جو شخص گونگا اور بہرا ہے، یا بول لیتا ہے، لیکن سن نہیں پاتا ، وہ نماز کیسے اد
اکریگا؟"
تو کمیٹی نے جواب دیا:
"ایسا شخص اپنی استطاعت کے مطابق نماز پڑھے گا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا)
ترجمہ: اللہ تعالی کسی نفس کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر مکلّف نہیں بناتا۔ [البقرہ:
286]
اور اسی طرح فرمایا:
(مَا
يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ)
ترجمہ: اللہ تعالی تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا۔ [المائدہ: 6]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
(يُرِيدُ
اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ)
ترجمہ: اللہ تعالی تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے [البقرہ: 185]
اسی طرح فرمایا:
(
فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)
ترجمہ: تمہارے اندر جتنی استطاعت ہو اس کے مطابق اللہ سے ڈرو۔ [التغابن: 16]" انتہی
" فتاوى اللجنة الدائمة" (6/403)
تاہم اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے کہ کیا ایسی صورتِ حال میں گونگے بہرے شخص کو تلاوت و اذکار کے وقت اپنی زبان کو حرکت دینی ہوگی یا نہیں؟
چنانچہ
"الموسوعة الفقهية " (19/92) میں ہے کہ:
"جو شخص تلفظ کی استطاعت گونگے ہونے یا کسی اور وجہ سے نہ رکھتا ہو تو قولی عبادات
اس سے ساقط ہو جائیں گی، اس پر تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے۔
تاہم اس بارے میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ : تکبیر اور قراءت کے وقت زبان کو
خالی حرکت دینا واجب ہے یا نہیں؟
چنانچہ مالکی، حنبلی، اور احناف کے صحیح موقف کے مطابق: گونگے شخص پر زبان کو حرکت
دینا واجب نہیں ہے، بلکہ ایسا شخص دل میں نماز کی تکبیر کہے گا؛ کیونکہ زبان کو
خالی حرکت دینا ، فضول حرکت ہے، اور شریعت میں اسکا حکم بھی نہیں ہے۔
جبکہ شافعی فقہائے کرام کے ہاں گونگے شخص پر زبان، ہونٹ، اور کوّے کو تکبیر کے
وقت قدرِ امکان حرکت دینا واجب ہے، یہی حکم اسکے تشہد، سلام سمیت تمام اذکار کا
ہے، ابن رفعہ کہتے ہیں: اگر زبان وغیرہ کو حرکت دینا بھی ممکن نہ ہو تو مریض شخص کی
طرح دل سے ادائیگی کی نیت کرے گا۔
لیکن شافعی فقہاء کی یہ بات ظاہری طور پر ایسے گونگے پن کیلئے ہے جو بعد میں پیدا ہوا ہے، البتہ پیدائشی گونگے کیلئے زبان کو حرکت دینا واجب نہیں ہے" انتہی
اس مسئلے میں جمہور کا موقف زیادہ بہتر ہے کہ زبان کو حرکت دینا بھی ساقط ہے۔
ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چنانچہ اگر [نمازی] گونگا ہو، یا زبان سے تکبیر کہنا اس کیلئے ناممکن ہو، تو تکبیر
کہنا اس سے ساقط ہو جائے گا، ۔۔۔اور اس کیلئے تلاوت کی جگہوں پر زبان کو حرکت
دینا لازم نہیں ہوگا۔۔۔، کیونکہ بغیر کسی تلفظ کے زبان کو حرکت دینا فضول عمل ہے،
شریعت میں اسکا حکم نہیں دیا گیا، چنانچہ نماز میں ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا، جیسے
کہ بدن کے دیگر اعضا کو فضول حرکت دینا جائز نہیں ہے" انتہی مختصراً
"المغنی" (2/130)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اور جو شخص قراءت اور ذکر نہ کر سکے، یا گونگا ہو تو وہ اپنی زبان کو خالی
حرکت نہیں دے گا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ زبان کو خالی حرکت دینے سے نماز باطل ہو
جائے گی تو یہ موقف زیادہ بہتر ہوگا؛ کیونکہ یہ فضول حرکت ہے، جو کہ خشوع وخضوع
کے خلاف ہے، اور شرعی طریقہ کار میں اضافہ کے مترادف ہے" انتہی
"الفتاوى الكبرى" (5/ 336)
خلاصہ:
گونگا شخص نماز کے جو ارکان ادا کر سکتا ہے، انہیں بجا لائے گا، اور تکبیر، تلاوتِ فاتحہ، رکوع و سجود، اور تشہد کے اذکار وغیرہ اور ان جیسےجن امور کو بجا لانے سے عاجز ہو تو وہ اس سے ساقط ہو جائیں گے۔
گونگے شخص کیلئے یہ حکم تمام حالات میں ہے، چنانچہ جن امور کو بجا لانے سے گونگا عاجز ہے، ان کے متعلق باز پرس نہیں ہوگی۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"گونگے اور بہرے شخص میں مجموعی حواس میں سے دو حس یں کم ہوتی ہیں، یعنی: سماعت،
اور گویائی ، تاہم ایسے شخص کے پاس بصارت موجود ہے، چنانچہ دین اسلام کے جن امور
کو بصارت کے ذریعے سیکھ لے تو یہ امور اس سے ساقط نہیں ہونگے، اور جن امور کو
بصارت کے ذریعے بھی سیکھ نہ سکے تو اس سے ساقط ہو جائیں گے۔
اس لئے اگر گونگا شخص کچھ بھی سمجھ نہیں سکتا، تو ہم کہیں گے: اگر اس کے والدین
مسلمان ہوں، یا ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہو تو اس کا حکم بھی ان کے مطابق ہو
گا، اور اگر وہ عاقل ، بالغ ہو اور اپنے معاملات کا خود ہی کفیل ہو تو اس کا
معاملہ اللہ کے سپرد ہے، تاہم مسلمانوں کے درمیان رہنے کی وجہ سے اس پرظاہری طور
پر اسلام کا حکم لاگو ہوگا، اور اس حکم کا اشاروں وغیرہ کی مدد سے کچھ نہ کچھ
ادراک کیا جائے گا۔۔" انتہی
"لقاء الباب المفتوح" (11/22، مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق)
مزید کیلئے سوال نمبر: (17793) کا جواب بھی ملاحظہ کریں
واللہ اعلم.