اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

دوران سفر فجر كے باقى نمازوں كى سنت مؤكدہ ترك كرنا

21467

تاریخ اشاعت : 03-03-2006

مشاہدات : 21599

سوال

مجھے علم ہے كہ دوران سفر نماز قصر كرنى افضل ہے، ليكن كيا ہم سنتيں ادا كرينگے يا نہيں؟
ميرے علم كے مطابق ميں تو سنتيں ادا كرتا ہوں كيونكہ مجھے اس ميں كوئى حديث نہيں ملى.

جواب کا متن

الحمد للہ.

سفر ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ تھا كہ آپ فرائض پر ہى اقتصار كرتے، اور يہ ثابت نہيں كہ دوران سفر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرائض سے قبل يا بعد ميں سنتيں ادا كرتے تھے.

عاصم بن عمر بن خطاب بيان كرتے ہيں كہ ميں مكہ كے راستے ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے ساتھ تھا تو انہوں نے ہميں ظہر كى نماز دو ركعت پڑھائى اور چل پڑے تو ہم بھى ان كے ساتھ چل پڑے حتى كہ وہ اپنے پڑاؤ والى جگہ ميں آئے اور بيٹھ گئے تو ہم بھى ان كے ساتھ بيٹھ گئے ان كى نظر وہاں پڑى جس جگہ انہوں نے نماز پڑھائى تھى تو كچھ لوگوں كو وہاں كھڑے ہوئے ديكھا تو فرمانے لگے:

يہ لوگ كيا كر رہے ہيں ؟ تو ميں نے عرض كيا: تسبيح كر رہے ہيں ( يعنى نفلى نماز ادا كر رہے ہيں ) تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما فرمانے لگے: اگر ميں تسبيح كرنے والا ہوتا ( يعنى فرضى نماز كے بعد نفلى نماز ادا كرنے والا ہوتا ) تو ميں اپنى نماز مكمل پڑھتا.

ميرے بھتيجے ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صحبت ميں كئى ايك سفر كيے تو انہوں نے دو ركعت سے زيادہ ادا نہيں كيں حتى كہ انہيں اللہ تعالى نے فوت كر ديا، اور ميں نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى صحبت بھى اختيار كى تو انہوں نے بھى فوت ہونے تك دو ركعت سے زيادہ ادا نہيں كيں، اورميں نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى صحبت ميں بھى سفر كيے انہوں نے بھى دو ركعت سے زيادہ ادا نہيں كيں، حتى كہ اللہ تعالى نے انہيں فوت كر ديا، پھر ميں نے عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كے بھى ساتھ رہا انہوں نے بھى دو ركعت سے زيادہ ادا نہ كيں حتى كہ اللہ تعالى نے انہيں فوت كر ديا، اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان بھى ہے:

يقينا تمہارے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ميں بہترين نمونہ ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( اور يہ ان ( ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما ) كى فقہ ميں سے ہے كہ اللہ تعالى نے مسافر كے ليے تخفيف كرتے ہوئے چار ركعت والى نماز ميں نصف كو ختم كر ديا، اور اگر اس كے ليے نماز سے قبل اور بعد ميں دو ركعت ادا كرنى مشروع ہوتيں تو نماز مكمل كرنى زيادہ اولى اور بہتر تھى )

ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 316 ).

اور اسى طرح سنن مؤكدہ ادا نہ كرنے كى مشروعيت پر مندرجہ ذيل حديث دلالت كرتى ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جمع ( يعنى مزدلفہ ) ميں مغرب اور عشاء كى نماز جمع كر كے ادا فرمائى، اور ہر ايك نماز كى جماعت اقامت كہہ كر كروائى اور ان دونوں نمازوں كے مابين اور نہ ہى ان كے بعد كوئى نماز ادا كى"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1673 ).

اور جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم چلے حتى كہ ميدان عرفات پہنچے تو ان كا خيمہ وادى نمرہ ميں نصب كيا جا چكا تھا تو آپ وہاں اتر پڑے حتى كہ سورج زائل ہو گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى اونٹنى قصواء كو چلنے كا حكم ديا حتى كہ جب وادى ميں پہنچے تو وہاں لوگوں كو خطاب كيا اور پھر بلال رضى اللہ تعالى عنہ نے اذان كہى اور پھر اقامت تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ظہر كى نماز پڑھائى اور پھر عصر اور ان دونوں نمازوں كے مابين كوئى نماز ادا نہيں كى"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).

ليكن اس سے فجر كى سنت مؤكدہ مستثنى ہيں، كيونكہ يہ سفر ميں بھى اسى طرح ادا كى جائينگى جس طرح حضر ميں ادا كى جاتى ہيں، ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا سفر ميں طريقہ يہ تھا كہ سفر ميں صرف فرض ادا فرماتے تھے، آپ صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں كہ انہوں نے نماز سے قبل اور بعد ميں كوئى نماز ادا كرتے، ليكن نماز وتر اور فجر كى سنتيں ضرور ادا فرماتے تھے، كيونكہ يہ دونوں نہ تو سفر ميں اور نہ ہى حضر ميں ترك فرمائى ).

ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 1 / 473 ).

اور ايك مقام پر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نوافل ميں سے سب سے زيادہ فجر كى سنتوں كى حفاظت اور خيال كرتے تھے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وتر اور فجر كى سنتيں كبھى ترك نہ كيں نہ تو سفر ميں اور نہ ہى حضر ميں دوسرى سنتوں كے مقابلے ميں نماز وتر اور فجر كى سنتيں سفر اور حضر ميں بھى ادا كرتے رہے، ليكن باقى سنتوں كے متعلق يہ منقول نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سفر ميں ادا كي ہوں )

ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 1 / 315 ).

ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك سفر ميں تھے تو آپ نے پڑاؤ كيا اور ميں نے بھى آپ كے ساتھ پڑاؤ كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

ديكھو، تو ميں نے كہا يہ ايك سوار اور يہ دو اور تين سوار ہيں حتى كہ ہم سات ہو گئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: ہمارى نماز كا خيال كرنا، يعنى نماز فجر كا، تو ان سب كے كانوں پردہ ڈال ديا گيا اور انہيں سورج كى تپش نے بيدار كيا تو سب اٹھ كر چل پڑے اور كچھ سفر كرنے كے بعد اتر كيا وضوء كيا اور بلال رضى اللہ تعالى عنہ نے اذان كہى تو سب نے فجر كى سنتيں ادا كيں اور پھر نماز فجر ادا كر كے سوار ہو گئے اور ايك دوسرے كو كہنے لگے:

ہم نے اپنى نماز ميں كوتاہى كى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: يہ نيند ميں كوتاہى نہ تھى بلكہ بيدار ہونے ميں كوتاہى ہوئى اس ليے اگر تم ميں سے كوئى نماز بھول جائے تو وہ اسى وقت نماز ادا كر لے جب اسے ياد آئے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 681 ).

اور مسلم ميں ہى كتاب صلاۃ المسافرين ميں حديث مذكور ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ: " نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم صبح كى دو ركعتوں كا جتنا خيال ركھتے اتنا كسى بھى نفلى نماز كا خيال نہيں كرتے تھے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 724 ).

اور اسى طرح مسافر كے ليے نماز وتر كى ادائيگى بھى مشروع ہے، اور اسى طرح قيام الليل، اور چاشت كى نماز، اور ہر سبب والى نماز مثلا تحيۃ الوضوء اور توبہ كى نماز اور تحيۃ المسجد اور طواف كى ركعات وغيرہ ادا كرنا بھى مشروع ہے، اور اسى طرح مطلقا نوافل كى ادائيگى بھى ممنوع نہيں.

اس كى دليل مندرجہ ذيل احاديث ہيں:

1 - ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميرے خليل صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے تين اشياء كى نصيحت فرمائى كہ ميں انہيں نہ تو سفر ميں ترك كروں اور نہ ہى حضر ميں: چاشت كى دو ركعت، اور مہينہ ميں تين يوم كے روزے ركھنا، اور وتر ادا كر كے سونا"

صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 1269 ).

2 - ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر ميں رات كى نماز اپنى سوارى پر ہى ادا كرتے چاہے سوارى جس طرف بھى متوجہ ہوتى، ليكن فرضى نماز نہيں، اور نماز ميں اشارہ كرتے، اور وتر بھى سوارى پر ہى ادا فرماتے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1000 ).

اور ايك روايت ميں ہے:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى سوارى پر ہى تسبيح كرتے، سوارى جس طرف بھى متوجہ ہوتى، اور وتر بھى سوارى پر ہى ادا كرتے، ليكن فرضى نماز سوارى پر ادا نہيں فرماتے تھے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1098 ).

3 - جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" سوارى جس طرف بھى متوجہ ہوتى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سوارى پر ہى نماز ادا كرتے اور جب فرضى نماز ادا كرنا چاہتے تو سوارى سے اتر كر قبلہ رخ ہوتے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 400 ).

4 - عمر بن عبد اللہ كے غلام ابو نضر بيان كرتے ہيں كہ ام ہانى بنت ابى طالب كے غلام ابو مرہ نے انہيں بتايا كہ انہوں نے ام ہانى سے سنا وہ كہہ رہى تھيں ميں فتح مكہ كے سال نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس گئى تو وہ غسل كر رہے تھے اور ان كى بيٹى فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے پردہ كيا ہوا تھا وہ كہتى ہيں ميں نے انہيں سلام كيا تو وہ كہنے لگے: يہ كون ہے ؟

تو ميں نے كہا ميں ام ہانى بنت ابى طالب ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

ام ہانى خوش آمديد، جب غسل سے فارغ ہوئے تو اٹھ كر ايك ہى كپڑے ميں لپٹے ہوئے آٹھ ركعت ادا كيں اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو ميں نے كہا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے ماں جائے بھائى كا خيال ہے كہ وہ اس شخص كو قتل كر دے گا فلاں ابن ہبيرہ جسے ميں نے پناہ دى ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے ام ہانى جسے تو نے پناہ دى ہم نے بھى اسے پناہ دى، اور يہ وقت چاشت كا تھا"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 357 ).

مسافر كے ليے سنن مؤكدہ ترك كرنے كى مشروعيت اور صرف نماز فجر كى دو سنتوں پر ہى اكتفاء بيان كرنے كا مقصد ہے، اسى طرح مسافر كے ليے مشروع ہے كہ وہ نماز وتر اور چاشت كى نماز اور سببى نماز كا بھى خيال ركھے اور اسے ادا كرے.

اس سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ بعض لوگوں كى زبانوں سے جو يہ نكلتا ہے كہ سفر ميں سنتيں ادا نہ كرنا سنت ہے، يہ غلط اور فى نفسہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى صحيح سنت كے خلاف ہے، بلكہ صحيح يہ ہے كہ يہ تو نماز ظہر اور مغرب اور عشاء سے پہلے اور بعد والى سنت مؤكدہ كے ساتھ مقيد ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب