الحمد للہ.
فقھاء رحمہم اللہ تعالی نے عاریت کی تعریف یہ کی ہے کہ :
کسی معین اورمباح چيز کا نفع لینا جس کا نفع لینا مباح ہو اورنفع حاصل کرنے کے بعد اصل چيز کومالک کوواپس کرنا ۔
تواس تعریف سے وہ چيز خارج ہوگی جس کا نفع حاصل کیا جاۓتووہ ضائع ہوجاۓ مثلا کھانے پینے والی چيزیں ۔
عاریت کتاب وسنت اوراجماع کے ساتھ مشروع ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
اور استعمال کرنے والی چيزوں سے روکتے ہیں الماعون ( 7 )
یعنی وہ چيزیں جولوگ عام طور پرآپس میں لیتے دیتے ہیں ، تو اللہ تعالی نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جوضرورت کی چيزوں سے لوگوں کوروکتے اورعاریت نہيں دیتے ۔
جو علماء کرام عاریت کوواجب کہتے ہیں انہوں نے اسی مندرجہ بالا آیت سے استدلال کیا ہے اورشیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا بھی یہی مسلک ہے کہ اگر مالک غنی ہوتو اسے کوئ چیزعاریت دینے سے نہیں روکنا چاہیۓ ۔
اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ سے گھوڑا عاریتا لیا تھا اورصفوان بن امیہ سے درعیں عاریتا حاصل کی تھیں ۔
کسی محتاج اورضرورت مند کوکوئ چيز عاریتا دینے میں دینے والے کواجروثواب اورقرب حاصل ہوتا ہے ، اس لیے کہ یہ عمومی طور پر نیکی اوربھلائ کے کاموں میں تعاون ہے ۔
عاریت کے صحیح ہونے کے لیے چار شرطیں ہیں :
پہلی شرط :
عاریت دینے والے کی اہلیت : اس لیے کہ اعارہ میں تبرع کی قسم پائ جاتی ہے ، اس لیے بچے اورمجنون نہ ہی بے وقوف کی عاریت صحیح ہوگی ۔
دوسری شرط :
جسے عاریت دی جارہی ہے وہ بھی لینے کا اہل ہو ، تا کہ اس کا قبول کرنا صحیح ہو ۔
تیسری شرط :
عاریتا دی جارہی چيزکا نفع مباح ہونا چاہيے : تومسلمان غلام کافر کوعاریتا نہیں دیا جاسکتا ، اورنہ ہی محرم کا شکاروغیرہ اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
اورتم برائ اوردشمنی کے کاموں میں تعاون نہ کرو ۔
چوتھی شرط :
کہ عاریتا دی گئی چيز سے نفع حاصل کرنے کے بعد اس کی اصل باقی رہنا ضروری ہے جس کے اوپر بیان کیا جا چکا ہے ۔
عاریت دینے والے کویہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اپنی چیزواپس لے لے لیکن اگر اس چيز کے واپس لینے سے عاریتا لینے والے کوکوئ نقصان ہونے کا خدشہ ہو پھر نہیں ۔
جیسے کہ اگر کسی نے سامان اٹھانے کے لیے کشتی عاریتا لی تواسے اس وقت تک واپس نہیں لیا جاسکتا جب تک کہ وہ سمندرمیں ہے ، اوراسی طرح اگرکسی نے دیوار عاریتا حاصل کی تا کہ وہ اپنی چھت اس پر رکھ سکے توجب تک اس کے اوپر چھت کی لکڑیاں ہیں اس وقت تک اسے واپس نہیں لیا جاسکتا ۔
اسی طرح عایت لینے والے پر واجب ہے کہ وہ عاریۃ لی گئ چيز کی حفاظت بھی اپنے مال کی طرح ہی کرے تا کہ اس کے مالک تک صحیح سالم لوٹائ جاسکے ، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
یقینا اللہ تعالی تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم امانتوں کوان کے مالکوں کولوٹادو ۔
تویہ آیت امانت کے لوٹانے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اوراس میں عاریت بھی شامل ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( آپ امانت کوامانت رکھنے والے کے پاس لوٹا دیں ) ۔
تویہ نصوص انسان کے پاس امانت رکھی گئی چيز کی حفاظت اوراسےمالک کوصحیح سالم واپس کرنے کے وجوب پر دلالت کرتیں ہیں ، اوراس عمومی حکم میں عاریت بھی شامل ہوتی ہے ، اس لیے عاریت لینے والا اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اوروہ چيز اس سے مطلوب بھی ہے ، اوراس کے لیےتوصرف اس چيز سے نفع حاصل کرنا جائز ہے وہ بھی عرف عام کی حدود میں رہتے ہوۓ ، تواس لیے وہ اسے ایسے استعمال نہیں کرسکتا کہ وہ چيز ہی ضائع ہوجاۓ اورنہ ہی اس کے یہ جائز ہے کہ وہ اس کا ایسا استعمال کرے جو صحیح نہ ہو اس لیے کہ اس کے مالک نے اس کی اجازت نہیں دی ۔
اوراللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
احسان کا بدلہ احسان ہی ہے ۔
اوراگر اسے جس کے لیے عاریتا حاصل کیا گیا تھا استعمال نہیں کرتا بلکہ کسی اورچيز میں استعمال کرتا ہے اوروہ چيز ضائع ہونے کی صورت میں اس کا ضامن ہوگا اوراس کا نقصان دینا واجب ہے ۔
اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جوکچھ ہاتھ نے لیا اسے واپس کرنا ہے ) اسے پانچ نے روایت کیا اورامام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے ۔
تواس سے یہ دلیل ملتی ہے کہ انسان نے جوکچھ لیا ہے وہ اسے واپس کرنا ہے اس لیے کہ وہ دوسرے کی ملکیت ہے اس لیے وہ اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے مالک یا اس کے قائم مقام تک نہيں پہنچ جاتی ۔
اگر عاریتا لی گئ چيز سے صحیح طریقے پر نفع حاصل کرتے ہوۓ وہ چيز ضائع ہوجاۓ تو عاریتا لینے والے پرکوئ ضمان نہیں اس لیے کہ دینے والے اس استعمال کی اجازت دی تھی اورجوکچھ اجازت شدہ پر مرتب ہواس کی ضمانت نہیں ہوتی ۔
اوراگر عاریتا لی گئي جس کام کے لیے لی گئي تھی اس کے علاوہ کسی اوراستعمال میں ضائع ہوجاۓ تواس کی ضمان میں علماء کرام کا اختلاف ہے :
کچھ کا کہنا ہے کہ : اس پر ضمان واجب ہے چاہے وہ اس نے زيادتی کی یا نہیں کی اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذيل قول کا عموم ہے :
( ہاتھ نے جوکچھ لیا ہے وہ اس کے ذمہ ہے حتی کہ وہ اسے واپس کردے ) ۔
یہ بھی اس جیسا ہی ہےکہ اگرکوئ جانور مرجاۓ یا کپڑے جل جائيں ، یا جوچيز کی عاریتا لی گئي ہے وہ چوری ہوجاۓ ۔
کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اگر وہ کوئ زیادتی نہيں کرتا تواس پر ضمان نہیں ہے ، اس لیے کہ زیادتی کے بغیراسے ذمہ کوئ ضمان نہيں ، شائد کہ یہی قول راجح ہے اس لیے کہ عاریتا لینے والے نے مالک کی اجازت سے اپنے قبضہ میں کیا ہے تووہ اس کے پاس امانت کی طرح ہی ہے ۔
مستعیر پرعاریتا لی گئي چيز کی حفاظت واجب ہے اسے چاہیے کہ وہ اس کا خیال رکھے اورجب اس کا کام ختم ہوجاۓ تواسے مالک کی طرف جلدی لوٹاۓ اوراس میں کسی قسم کی بھی سستی اورکاہلی سے کام نہ لے اورنہ ہی اسے ضائع ہونے دے اس لیے کہ وہ اس کے پاس امانت ہے اوراس کے مالک نے اس پر احسان کیا ہے ۔
اورپھراللہ تعالی کا بھی فرمان ہے :
اورکیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اوربھی ہے ؟ .