الحمد للہ.
اول:
جس وقت کسی میت کا ذکر کیا جائے تو اس وقت "اللہ تعالی اس پر رحم فرمائے" یا "اللہ اسے بخش دے"جیسے دعائیہ کلمات کہنا درست ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ میں میت کیلئے یہی دعا تھی:
(اللَّهُمَّ
اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ ، وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ)یا
اللہ! اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، اسے عافیت سے نواز، اور اسے معاف کردے۔ مسلم:
(963)
اور صحیح بخاری (1186)میں ہے کہ:
"جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو ان کے بارے میں ام علاء انصاری رضی
اللہ عنہا نے کہا تھا: "ابو سائب[عثمان بن مظعون کی کنیت]! اللہ تعالی تم پر رحم
کرے"
یہ بات تو سب اچھی طرح جانتے ہیں اس کے بارے میں دلائل دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
اور یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ لوگوں کو مرنے کے بعد قبروں میں
دفنایا جاتا ہے، جہاں انکے جسم تحلیل ہوکر بوسیدہ اور مٹی ہوجاتے ہیں، اسی وجہ سے
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مشرکین کا عقیدہ انکارِ حیات بعد الممات کا ذکر کیا
ہے، کہ مٹی ہونے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہوسکتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
(
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَإِذَا كُنَّا تُرَابًا وَآبَاؤُنَا
أَئِنَّا لَمُخْرَجُونَ
)
ترجمہ: اور کافر کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے آباؤ اجداد مٹی ہو جائیں گے تو کیا
ہمیں دوبارہ نکالا جائے گا!؟۔ النمل/67
چنانچہ "اللہ تیری تربت پر رحمت فرمائے" اگر یہ جملہ دعا کرنے والا شخص اس نیت سے کہہ رہا ہے کہ میت کا جسم مٹی میں تحلیل ہوگیا ہے، تو یہ میت کیلئے رحمت کی دعا ہے، جو کہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔
اور اگر "تربت" سے مراد وہ مٹی ہے جس میں میت کو دفنایا گیا ہے، تو یہ دعا درست نہیں ہے، کیونکہ مٹی کیلئے مغفرت وغیرہ کی دعا نہیں کیجاتی۔
لہذا بہتر یہی ہے کہ ان الفاظ کو بالکل چھوڑ دینا چاہئےکیونکہ اس میں ابہام، اور شبہ پایا جاتا ہے، اور ان الفاظ کیساتھ دعا مانگی جائے جس میں کوئی شبہ اور اشکال نہ ہو۔
واللہ اعلم.