سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كسى اچھے اور بہترين قارى كے پيچھے دور والى مسجد ميں نماز كے ليے جانے كا حكم

21877

تاریخ اشاعت : 17-06-2006

مشاہدات : 5942

سوال

ہمارے شہر ميں ايك بہت اچھا قارى ہے جو نماز بہت خشوع كے ساتھ ادا كرتا ہے، اور اسے سننے كے ليے دور دور كے شہروں سے لوگ آتے ہيں ان لوگوں كے آنے كا حكم كيا ہے ؟
كيا يہ درج ذيل حديث كى ممانعت ميں تو نہيں آتے:
" تين مساجد كے علاوہ كسى اور مسجد كى طرف سفر كر كے نہيں جايا جائے، مسجد حرام اور مسجد اقصى اور ميرى يہ مسجد "
صحيح بخارى باب فضل الصلاۃ حديث نمبر ( 1197 )
اس سلسلہ ميں معلومات فراہم كريں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمارے علم كے مطابق اس ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ يہ طلب علم اور قرآن كريم ميں تفقہ اور سمجھ كے حصول اور اسے اچھى آواز كے ساتھ پڑھنے والے كو سننے كے ليے سفر ہے، اس غرض سے سفر كرنا ممنوعہ سفر ميں شامل نہيں ہوتا.

موسى عليہ السلام نے طلب علم كے ليے سمند كے ملنے والى جگہ تك كا علمى سفر كيا تا كہ خضر عليہ السلام سے مل سكيں، اور صحابہ اور ان كے بعد والے اہل علم بھى اپنے علاقے اور ايك جگہ سے دوسرى جگہ طلب علم كے ليے سفر كرتے رہے ہيں.

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص طلب علم كى راہ پر چلا اللہ تعالى اس كے ليے جنت كى راہ آسان كر ديتا ہے "

صحيح مسلم كتاب الذكر و الدعاء حديث نمبر ( 2699 ).

ماخذ: الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ديكھيں: مجلۃ البحوث عدد نمبر ( 42 ) صفحہ نمبر ( 137 )