جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

ان دونوں میں سے کونسا عمل افضل ہے؟ سید الاستغفار یا یونس علیہ السلام کی دعا؟

218905

تاریخ اشاعت : 25-05-2015

مشاہدات : 28572

سوال

سوال: "لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ" اور سید الاستغفار یا "اَسْتَغْفِرُ اللَّہَ" ان دونوں میں سےکونسا ذکر افضل، اعلی، اور مشکل کشائی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے ہاں میزان میں زیادہ وزنی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اذکار کے بارے میں شرعی عمل یہ ہے کہ ذکر کرنے والا  وقتا فوقتا تمام اذکار کو پڑھتا رہے۔
اس بارے میں مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (197433) کا مطالعہ کریں۔

لہذا شرعی نصوص میں جن دعاؤں کا  مشکل کشائی کے وقت پڑھنے  کا ذکر ہے، انہیں مصیبت زدہ افراد  مصیبت کے وقت پڑھیں، اور جن حالات کے بارے  استغفار کا ذکر ہے، ان حالات میں  استغفار اپنی زبان پر جاری رکھے، چنانچہ یونس علیہ السلام کی دعا  کو مصیبت کے وقت میں پڑھنا چاہیے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ [87] فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ )
ترجمہ: مچھلی والے  [یونس علیہ السلام]  کو یاد کرو! جبکہ وہ غصہ سے چل دیئے اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے،  بالا آخر وہ اندھیروں   کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں ہوگیا [88] تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں  ۔ [الأنبياء:87 -88]

اور حاکم: (1864) نے سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ: "ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں ایسی دعا نہ بتلاؤں کہ  جب تم  سے کوئی مصیبت میں مبتلا ہو جائے ، یا دنیاوی کوئی آزمائش آ جائے تو    اس دعا کے کرنے سے اس کی مشکل کشائی ہو جائے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: "کیوں نہیں؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( ذو النون کی دعا: " لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ") اس حدیث کو  البانی رحمہ اللہ نے "سلسلہ صحیحہ ": (1744) میں صحیح کہا ہے۔

جبکہ اسی روایت کو امام ترمذی : (3505) میں ان الفاظ میں روایت کیا ہے:  (ذو النون کی مچھلی کے پیٹ میں کی ہوئی دعا: " لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ " کے ذریعے کوئی بھی مسلمان شخص  کسی بھی وقت دعا کرے تو اللہ تعالی اس کی دعا کو قبول فرماتے ہیں) اسے بھی البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

استغفار کرنے کے سب سے افضل ترین الفاظ میں سب سے پہلے سید الاستغفار کے الفاظ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ان الفاظ کو "سید الاستغفار" سے موسوم فرمایا ہے، چنانچہ  صحیح بخاری: (6306) میں شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو: "اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنوبَ إِلاَّ أَنْتَ"[یعنی:  یا اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا ہے، اور میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے  عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے ہوئے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں،  میں تیرے حضور تیری مجھ پر ہونیوالی نعمتوں کا اقرار  کرتا ہوں، ایسے ہی اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، لہذا مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے] آپ نے فرمایا: جس شخص نے  کامل یقین کے ساتھ دن کے وقت اسے پڑھا، اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اسکی موت ہوگئی ، تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا، اور جس شخص نے  اسے رات کے وقت کامل یقین کے ساتھ اسے پڑھا اور صبح ہونے سے قبل ہی فوت ہو گیا تو وہ بھی جنت میں جائے گا)

چنانچہ یہ دونوں دعائیں  اپنے اپنے مخصوص اوقات میں افضل اور بہتر ہیں، لہذا جو شخص کسی مشکل اور مصیبت میں پھنسا ہو ا ہو تو اس کیلئے ذو النون یعنی یونس علیہ السلام کی دعا افضل ہے، اور جو شخص اللہ تعالی سے گناہوں کی بخشش چاہتا ہے تو سید الاستغفار اس کیلئے زیادہ افضل ہے۔

دوم:

اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ بسا اوقات  کچھ لوگوں کیلئے مفضول شے [یعنی پہلے درجے کی بجائے دوسرے  درجے کی چیز] دوسروں  کیلئے افضل [پہلے درجے میں]ہوتی ہے، اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر وہ کسی دعا  کا معنی و مفہوم اچھی طرح سمجھتا ہے، حاضر قلبی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے،  اور اس دعا کو پڑھتے ہوئے خشوع و خضوع قائم رکھتا ہے تو ایسے شخص کیلئے یہی دعا افضل ہوگی، تا ہم اِس شخص کیلئے  جز وقتی طور پر افضل  ذکر تمام لوگوں کیلئے کل  وقتی افضل نہیں ہو سکتا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بسا اوقات  مفضول ذکر فضیلت والے ذکر سے بھی افضل ہو سکتا ہے، اسی طرح مفضول ذکرایسے شخص کے لئے افضل ہے جو اس  کی استطاعت رکھنے والا ہو اور اسے پڑھ کر استفادہ کرتا ہو، جبکہ  جس ذکر کو کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو  چاہے وہ ذکر فضیلت والا ہے، لیکن اس کیلئے وہ افضل نہیں ہے" انتہی
" مجموع الفتاوى " (11 /399)

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا تلاوت قرآن افضل عمل ہے یا ذکر و تسبیح؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"اجمالی طور پر تلاوت قرآن ذکر سے افضل ہے، اور ذکر دعا سے افضل ہے؛ لیکن  بسا اوقات  مفضول عمل  فضیلت والے اعمال سے بھی افضل ہو سکتا ہے، جیسے کہ نماز ان تمام  امور سے افضل ہے، لیکن دوسری طرف تلاوت قرآن، ذکر، اور دعا  کرنا  پانچ ممنوعہ اوقات   میں اور خطبہ کے وقت  نماز سےزیادہ  افضل ہیں، اسی طرح رکوع و سجود کے دوران تسبیح  تلاوت قرآن سے افضل ہے، اور آخری تشہد  ذکر سے افضل ہے۔
اور ایسے بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مخصوص حالات کے باعث مفضول  سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں،   یعنی:  قلبی میلان، شرح صدر، اور بدنی استطاعت  اس مفضول کام کیلئے مہیا ہوتی ہے، مثلاً:  کچھ لوگ ذکر کیلئے ہمت تلاوت قرآن سے زیادہ  رکھتے ہیں،  چنانچہ  جو عمل کامل ترین صورت میں ادا ہو گا وہ عمل ایسے  اعمال کی بنسبت لوگوں کیلئے زیادہ فضیلت والا ہوگا، جو کامل ترین صورت میں ادا نہ ہو، اور اگر چہ ناقص ادا شدہ عمل   کامل ادا شدہ عمل سے حقیقت میں افضل ہی ہو گا ، اور بسا اوقات  انسان افضل عمل کرنے سے عاجز ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں  انسانی وسعت میں موجود عمل ایسے شخص کیلئے افضل قرار پائے گا۔ واللہ اعلم" انتہی
" مجموع الفتاوى " (23 /62-63)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نیک اعمال کے بھی درجے ہیں، اور سب ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں، تاہم کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مفضو ل عمل کو ایسی عارضی خصوصیت مل جائے جس کی وجہ سے عام فضیلت  والے اعمال سے بھی زیادہ افضل بن جائے" انتہی
"لقاء الباب المفتوح" (12 /22) مکتبہ شاملہ کے مطابق

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب