اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

ایمان کے اسباب اور ایمان کیلیے رکاوٹیں کون سی چیزیں بنتی ہیں۔

سوال

ایمان میں کون سی چیز رکاوٹ بنتی ہے اور ایمان کے اسباب کیا ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول: ایمان کے اسباب بہت زیادہ ہیں ان میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں:

  1. حصول علم، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:   لَكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ
    ترجمہ: لیکن ان میں سے جو علم میں پختہ اور ایماندار ہیں وہ اس وحی پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف  نازل کی گئی ہے اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئی تھی۔[النساء: 162 ]
  2. حق بات قبول کرنا اور قبول کرنے سے تکبر نہ کریں، فرمانِ باری تعالی ہے: تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
    ترجمہ: یہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیتے ہیں جو زمین میں بڑائی یا فساد نہیں چاہتے اور (بہتر) انجام تو پرہیز گاروں کے لئے ہے۔ [القصص: 83 ]
  3. کائنات کی نشانیوں میں غور و فکر، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
    ترجمہ: آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، اور رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں  ہیں [آل عمران: 190 ]
  4. اللہ تعالی کے فرامین کو جھٹلانے والوں کے انجام پر غور و فکر، اس کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا: أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ
    ترجمہ: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے جو کچھ سمجھتے سوچتے اور کان ایسے جن سے وہ کچھ سن سکتے۔ [الحج: 46 ]
  5. قرآن کریم اور اللہ تعالی کے شرعی احکامات میں موجود نشانیوں پر غور و فکر ، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ
    ترجمہ: جو کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے بڑی برکت والی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور اہل عقل و دانش اس سے سبق حاصل کریں۔ [سورة ص: 29 ]
  6. خواہش پرستی سے دوری، فرمانِ باری تعالی ہے: فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ كِتَابٍ
    ترجمہ: لہذا آپ اسی دین کی دعوت دیجئے اور جو آپ کو حکم دیا گیا ہے اس پر ڈٹ جائیے۔ اور ان کی خواہشات پر نہ چلیے اور کہہ دیجئے کہ : '' میں اس کتاب پر ایمان لایا جو اللہ نے نازل کی ہے [الشورى: 15 ]

ایک اور مقام پر فرمایا: ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
ترجمہ: پھر ہم نے آپ کے لئے دین  کا ایک طریقہ مقرر کیا ہے۔ آپ بس اس کی پیروی کیجئے اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے جو علم نہیں رکھتے ۔[الجاثية: 18 ]

  1. اہل ایمان کی صحبت اختیار کریں اور کافروں سمیت گناہ گاروں کی صحبت سے دوری ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا * يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا * لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا
    ترجمہ: اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا : کاش ! میں نے رسول کے ساتھ ہی اپنی روش   اختیار کی ہوتی۔  [27] کاش ! میں نے فلاں شخص کو دوست  نہ بنایا ہوتا۔  [28] اس نے تو میرے پاس نصیحت آ جانے کے بعد مجھے بہکا دیا اور شیطان تو انسان کو مصیبت پڑنے پر چھوڑ جانے  والا ہے۔ [الفرقان: 27 – 29 ]
  2. راہ راست پر قائم عقل سلیم کو فیصل مانیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ
    ترجمہ: اور کہیں گے کہ اگر ہم سنتے ہوتے یا عقل رکھتے ہوتے تو دوزخیوں میں شمار  نہ ہوتے ۔ [الملك : 10 ]
  3. نیکی کے کاموں سے محبت جبکہ کفر اور گناہوں سے نفرت ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ
    ترجمہ: لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس محبت کو تمہارے دلوں میں سجا دیا۔ اور کفر، عناد اور نافرمانی سے نفرت پیدا کر دی ۔ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ [الحجرات: 7 ]
  4. ان تمام اسباب میں سے اہم ترین سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی مشیئت شامل حال ہو، اللہ تعالی کے طرف سے خیر و بھلائی مقدر میں لکھ دی گئی ہو، اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
    ترجمہ: اور اللہ تعالی سلامتی کے گھر کی طرف تم کو بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہ راست پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ [يونس: 25]

دوم:

اسی طرح ایمان کیلیے رکاوٹ بننے والے امور بھی بہت زیادہ ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:

  1. جہالت اور ایمان کی اعلی تعلیمات سے لاعلمی اور ناآشنائی، اللہ تعالی کا فرمان ہے: بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ
    ترجمہ: بلکہ انہوں نے اس چیز کو جھٹلا دیا جس کا انہوں نے  اپنے علم سے احاطہ نہ کیا تھا حالانکہ ابھی تک اس کی حقیقت ان   سامنے ہی نہیں آئی تھی۔ اسی طرح ان لوگوں نے بھی جھٹلا دیا جو ان سے پہلے تھے پھر دیکھ لو، ظالموں کا کیا انجام ہوا ؟ [يونس: 39 ]

اسی طرح فرمایا: وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ
ترجمہ: اور لیکن ان میں سے اکثر جاہل ہیں۔[الأنعام: 111 ]

ایک اور مقام پر فرمایا: وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
ترجمہ: اور لیکن اکثر ان میں سے علم ہی نہیں رکھتے۔[الأنعام: 37 ]

  1. حسد اور بغاوت، جیسے کہ یہودی ان میں ملوث ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ
    ترجمہ: اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعد پھر سے تمہیں کافر بنا دیں۔ جس کی وجہ ان کا وہ حسد ہے جو ان کے سینوں میں ہے جبکہ اس سے قبل ان پر حق بات واضح ہو چکی ہے۔ [البقرة: 109 ]
  2. تکبر، فرمانِ باری تعالی ہے: سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ
    ترجمہ: اور اپنی آیتوں سے ان لوگوں (کی نگاہیں) پھیر دوں گا جو بلاوجہ زمین میں اکڑتے ہیں ۔ وہ خواہ کوئی بھی نشانی دیکھ لیں اس پر ایمان نہ لائیں گے۔ اور وہ راہ ہدایت دیکھ لیں تو اسے اختیار نہیں کرتے اور اگر گمراہی کی راہ دیکھ لیں تو اسے فوراً اختیار کرتے ہیں۔ ان کی یہ حالت اس لیے ہے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا اور ان سے لاپروائی کرتے رہے [الأعراف: 146 ]
  3. حق بات قبول کرنے سے رو گردانی، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا
    ترجمہ: پھر اگر وہ منہ موڑیں تو ہم نے آپ کو ان پر نگران  بنا کر نہیں بھیجا۔ [الشورى: 48 ]

ایسے ہی فرمایا: وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِنْ لَدُنَّا ذِكْرًا * مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْرًا * خَالِدِينَ فِيهِ وَسَاءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا
ترجمہ: نیز ہم نے اپنے ہاں سے آپ کو ذکر (قرآن) عطا کیا ہے۔  [99] جو شخص اس سے اعراض کرے گا وہ قیامت کے دن گناہ کا بوجھ  اٹھائے ہوئے ہوگا۔ [100] وہ ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے اور قیامت کے دن ایسا بوجھ اٹھانا کیسا برا ہوگا ۔ [طه : 99 - 101 ]

ایک اور مقام پر فرمایا: فَأَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلَّى عَنْ ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
ترجمہ: تو آپ اس سے منہ موڑ لیں جو ہماری یاد سے منہ موڑے اور جس کا ارادہ بجز زندگانی دنیا کے اور کچھ نہیں۔ [النجم: 29 ]

مزید سورت زخرف میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ
ترجمہ: اور جو شخص رحمن کے ذکر سے آنکھیں  بند کر لیتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ [الزخرف: 36 ]

  1. مدلل انداز میں ایمان کی حقیقت کا ادراک کرنے کے بعد بھی قبول کرنے سے پس  وپیش کرنا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
    ترجمہ: جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ اسے (پیغمبر) کو یوں پہچانتے ہیں جیسے  اپنے بیٹوں کو۔ مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈال رکھا ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔[الأنعام: 20 ]

ایک اور مقام پر فرمایا: : فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ
ترجمہ: پھر جب انہوں نے کج روی  اختیار کی تو اللہ تعالی نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیئے [الصف: 5 ]

نیز اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے: كَذَلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِينَ كَانُوا بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
ترجمہ: اسی طرح وہ لوگ بہکائے جاتے رہے ہیں جو اللہ کی آیات کا انکار کیا کرتے تھے۔ [غافر: 63 ]

  1. عیش و عشرت میں ڈوب کر آسائش پرست بن جانا، ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا: وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُونَ
    ترجمہ: اور جس دن کافر دوزخ پر پیش کئے جائیں گے (تو انہیں کہا جائے گا) تم دنیا کی زندگی میں پاکیزہ چیزوں [٣١] سے اپنا حصہ لے چکے اور ان سے مزے اڑا چکے آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ یہ ان باتوں کا بدلہ ہے کہ تم زمین میں ناحق اکڑ رہے تھے اور نافرمانی کیا کرتے تھے۔  [الأحقاف: 20 ]

اسی طرح فرمایا: إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُتْرَفِينَ
ترجمہ: بیشک وہ اس سے پہلے خوش حال تھے [الواقعة: 45 ]

  1. حق اور اہل حق کو حقیر سمجھنا، جیسے کہ اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کی قوم کی بات بتلاتے ہوئے فرمایا: قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ
    ترجمہ: انہوں نے جواب دیا کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں حالانکہ تیری پیروی کرنے والے رذیل لوگ ہیں ۔[الشعراء: 111 ]
  2. فسق و فجور میں مبتلا رہنا اور رحمن کی اطاعت سے شیطان کی بندگی میں مصروف ہو جانا، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: كَذَلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ فَسَقُوا أَنَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
    ترجمہ: اسی طرح آپ کے رب کی یہ بات کہ ایمان نہ لائیں گے، تمام فاسق لوگوں کے حق میں ثابت ہو چکی ہے ۔[يونس: 33 ]
  3. سنگ دلی، اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
    ترجمہ: پھر جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے ؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور جو کام وہ کر رہے تھے شیطان نے انہیں وہی کام خوبصورت بنا کر دکھا دیئے [الأنعام: 43 ]
  4. اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت سے بغض رکھنا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ * ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ
    ترجمہ: اور جن لوگوں نے کفر کیا، ان کے لئے تباہی  ہے اور وہ ان کے اعمال برباد کردے گا۔[9] یہ اس لئے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا تھا اسے انہوں نے ناگوار سمجھا تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کر دیئے۔   [محمد: 8 ، 9 ]

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: {31807} کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب