ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

پانی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم استنجا کیسے کیا کرتے تھے؟

سوال

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پانی کے ساتھ استنجا کرتے ہوئے کیا طریقہ کار اپناتے تھے، خصوصاً پیشاب کرنے کے بعد کیا طریقہ ہوتا تھا؟ کیا احادیث مبارکہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم پانی انڈیلتے تھے یا ہاتھ میں پانی لے کر صفائی کرتے تھے، صحیح طریقہ کار کیا ہے؟ اور کتنی مقدار میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پانی استعمال کرتے تھے، پھر استنجا کرنے کے بعد اپنے ہاتھ کیسے دھوتے تھے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر کام میں اسراف اور فضول خرچی سے روکا کرتے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وضو اور غسل کرتے ہوئے بھی پانی میانہ روی سے استعمال کرتے تھے، پانی ضائع نہیں کرتے تھے، حتی کہ احادیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک مد پانی سے بھی وضو کر لیا کرتے تھے، جیسے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم: (325) میں منقول ہے۔

ایک مُد پانی: معتدل قامت والے انسان کے دونوں ہاتھوں میں آنے والے پانی کی مقدار کو مُد کہتے ہیں۔

تو اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم استنجا کرتے ہوئے بھی اسراف سے کام نہیں لیتے تھے، چنانچہ جتنی ضرورت ہوتی اتنا ہی پانی استعمال کرتے تھے، لہذا استنجا کے لیے اتنی مقدار میں پانی استعمال کرتے جس سے نجاست زائل ہو جاتی تھی۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (171285 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جس وقت استنجا ، یا گندگی یا کوئی بھی ناگوار چیز زائل کرنے کی ضرورت ہوتی تو آپ یہ کام صرف بائیں ہاتھ سے کرتے تھے، جیسے کہ سنن ابو داود: (33) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دایاں ہاتھ طہارت اور کھانے کے لیے استعمال ہوتا تھا، اور بایاں ہاتھ بیت الخلا اور دیگر ناگوار چیزوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔" اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ: "انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غسل کے لیے پانی رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی گرایا، اور دونوں ہاتھوں کو 2، 2 بار یا 3 بار دھویا، اور پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور پھر اپنا عضو خاص دھویا، پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا " ایک روایت کے الفاظ میں ہے کہ: "اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے زمین پر یا دیوار پر رگڑا"

چنانچہ اگر ایسا کرنا ممکن ہو کہ دائیں ہاتھ سے پانی ڈالے اور بائیں ہاتھ سے جسم دھوئے تو ایسا ہی کرے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت قضائے حاجت کے لیے نکلتے تو میں اور ایک لڑکا چمڑے کے چھوٹے برتن میں پانی لاتے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس پانی سے استنجا کرتے تھے۔"
حدیث کے عربی متن میں: { الْإِدَاوَة} سے مراد چمڑے کا چھوٹا برتن ہے جو کہ پانی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس لفظ کی یہ وضاحت "فتح الباري" از ابن حجر(1/ 76) میں موجود ہے۔

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر پانی چمڑے کے چھوٹے برتن وغیرہ میں ہو تو برتن سے براہ راست شرمگاہ پر پانی ڈالا جا سکتا ہے۔" ختم شد
" فتح الباری" از: ابن رجب (1/ 276)

سوم:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت بیت الخلا سے باہر نکلتے تو زمین پر ہاتھ رگڑتے ، جیسے کہ پہلے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ: " پھر اپنا عضو خاص دھویا، پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا "

اور سنن نسائی: (50) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کرنے کا ارادہ فرمایا، تو جب استنجا سے فارغ ہوئے پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا" اس حدیث کو صحیح نسائی میں البانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ عمل واضح اور سمجھ میں آنے والا ہے کہ آپ نے یہ اس لیے کیا کہ اگر استنجا کرنے سے ممکنہ طور پر گندگی وغیرہ ہاتھ کو لگی رہ گئی ہے تو وہ بھی زائل ہو جائے اور اگر ہاتھ سے بو آ رہی ہے تو وہ بھی ختم ہو جائے؛ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر عنوان قائم کیا ہے کہ: "ہاتھوں کو مزید صاف کرنے کے لیے مٹی سے صاف کرنے کا باب۔" ختم شد

صاحب "عون المعبود" (1/ 44) لکھتے ہیں کہ:

"[آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ عمل اس لیے کیا کہ] اگر شرمگاہ دھونے کے بعد بھی کوئی ناگوار بو ہاتھ میں باقی رہ گئی ہے تو وہ بھی زائل ہو جائے۔"

چنانچہ آج کل اگر کوئی شخص بیت الخلا سے فراغت کے بعد صابن وغیرہ استعمال کرے اور اس سے ناگوار اثرات بھی ختم ہو جائیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے ہاتھوں کو زمین پر رگڑ لیا ہے، بلکہ صابن استعمال کرنے سے اس کا ہاتھ زیادہ صاف ہو گا۔

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"پانی سے استنجا کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ جب استنجا سے فارغ ہو تو اپنے ہاتھ مٹی یا اشنان بوٹی سے دھوئے، یا مٹی یا دیوار پر ہاتھ رگڑ لے تا کہ ہاتھ اچھی طرح صاف ہو جائے۔" ختم شد
" شرح مسلم" (3/231)

آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بعد پھر ویسے ہی وضو کرتے تھے جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، چنانچہ پہلے دونوں ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے۔

جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "مجھے میری خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے غسل جنابت کی غرض سے پانی رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے اپنے دونوں ہاتھ 2، 2 یا 3 بار دھوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، اور بائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو اچھی طرح دھویا، پھر آپ نے اپنا بایاں ہاتھ زمین پر مارا اور اچھی طرح سے رگڑا، پھر بالکل اسی طرح وضو کیا جیسے نماز کے لیے کرتے ہیں، اور پھر آپ نے اپنے سر پر تین چلو ایک ہاتھ سے بھر بھر کر ڈالے، پھر آپ نے اپنا سارا جسم دھویا، اور اپنے غسل کی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں بھی دھوئے۔"

صحیح مسلم کے الفاظ یہ بھی ہیں کہ: "تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی دونوں ہتھیلیاں 2، 2 بار یا 3 بار دھوئیں، پھر اپنا ہاتھ برتن میں داخل کیا۔" ختم شد

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (2532 )  کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب