سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

شیطان کا انسان کی اولاد میں شریک ہونا

21946

تاریخ اشاعت : 30-08-2003

مشاہدات : 11800

سوال

کیا یہ صحیح ہے کہ اگر جماع سے قبل بسم اللہ نہ پڑھی جاۓ تواس میں شیطان شریک ہوجاتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


بسم اللہ نہ پڑھنے سے شیطان کی مشارکت کے متعلق اللہ تعالی نےارشاد فرمایا ہے :

اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا

قرطبی رحمہ اللہ کا قول ہے : یعنی اس میں اپنے لیے شراکت بنا لے ۔۔

اور اولاد سے مراد یہ کہا گيا ہے کہ :

مجاھد ، ضحاک ، رحمہما اللہ اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کا قول ہے کہ اس سے مراد اولاد زنا ہے ،

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما یہ بھی مروی ہے : اس سے مراد وہ اولاد ہے جو انہوں نے قتل کردی اور ان میں جرائم کے مرتکب ہوۓ ۔

اورابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما یہ بھی مروی ہے : اس سے یہ مراد ہے کہ اولاد کے نام عبدالعزی ، عبدالشمس ، عبدالحارث ، عبدالات وغیرہ ہے ۔

اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ اس سے مراد اولاد کوکفر میں رنگنا حتی کہ انہیں یھودی ، عیسائ بنا ڈالا جیسا کہ عیسائ‏ اولاد کواپنے خاص پانی میں ڈبوتے ہیں ، یہ قول قتادۃ رحمہ اللہ تعالی سے منقول ہے ۔

اورمجاھدرحمہ اللہ تعالی سے پانچواں قول یہ ہے کہ :

جب آدمی بسم اللہ پڑھے بغیر جماع کرتا ہے تو جن اس کی بیوی سے لپٹ کروہ بھی اس کے ساتھ مل کرجماع کرتا ہے تو اللہ تعالی کا قول بھی یہی ہے :

ان کو ان سے قبل نہ توانسانوں اور نہ ہی جنوں نے ہاتھ لگایاہے تفسیر قرطبی ( 10 / 289 ) ۔

ابن کثيررحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

اللہ تعالی کا فرمان اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا

اللہ تعالی کا قول اور اولاد میں عوفی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ مجاھداور ضحاک رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ یعنی اولاد زنا ۔

علی ابن ابی طلحہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولاد مراد ہے جنہیں وہ بے علمی اوربیوقوفی کی بناپر قتل کردیتےتھے۔

اورقتادہ رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ ، اللہ کی قسم وہ یقینی طورپر اموال اور اولاد میں شریک ہے انہیں یھودی ، عیسائ ، اورمجوسی بنادیا اور اسلام کی علاوہ دوسرے رنگوں میں رنگا ، اور ان کےاموال میں سے شیطان کا حصہ رکھا ، اورقتادہ رحمہ اللہ نے بھی ایسے ہی کہا ہے ۔

اور صالح رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی اولاد کے نام عبدالحارث ، عبدالشمس ، اور فلاں کا بندہ وغیرہ رکھنا ۔

ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

ان اقوال میں سے اقرب الی الصواب یہ ہے کہ ہروہ مولود جس کے نام میں اللہ تعالی کی معصیت ہو اوراللہ تعالی کوناپسند ہو ، یاپھراسے اللہ تعالی کے پسندیدہ دین کوچھوڑ کرکسی اوردین میں داخل کردے ، یا اس کی ماں سے زنا کرکے ، یا اسے قتل اور زندہ درگورکرکے، یاان کے علاوہ دوسرے کاموں کے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جاۓ ۔

توجس سے وہ بچہ پیداہوا یا جس کا وہ ہے اس کی وجہ سے وہ ابلیس کی مشارکت میں داخل ہوگیا ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا میں شرکت کےکسی معنی کوخاص نہیں کیا تو وہ کسی بھی لحاظ سے ہوسکتی ہے ، توجس میں اللہ تعالی کی نافرمانی ہو یااس کے ساتھ نافرمانی کی جاۓ ، یا اس کام میں شیطان کی بات مانی جاۓ ، یا اس کام سے شیطان کی اطاعت ہوتی ہو تواس میں شیطان کی مشارکت ہے ۔

متجہ کابھی یہی قول ہے اورسلف رحمہ اللہ نے مشارکت کی کچھ تفسیربھی بیان کی ہے ، اورصحیح مسلم میں ہے کہ :

عیاض بن حماررضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالی فرماتا ہے " بیشک میں نے اپنے بندوں کوحنفاء توحید والا بنایا توان کے پاس شیطان آیا اور انہیں ان کے دین سے علیحدہ کردیا اورمیں نے جو اشیاء ان پرحلال کی تھیں اس نے ان کے لیے حرام کردیا ۔صحیح مسلم ( 2865 )

اور صحیحین میں ہے کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

ان میں سے اگرکوئ اپنی بیوی کے پاس جانے سے پہلے یہ دعا پڑھے اور اللہ تعالی انہیں اولاد دے تو شیطان کبھی بھی اسے نقصان نہیں دے سکےگا (بسم اللہ جنبنا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنا ) اللہ تعالی کے نام سے اے اللہ ہمیں شیطان سے بچا اورہمیں جو (اولاد ) عطا کرے اسے بھی شیطان سے بچا کررکھ ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3271 ) صحیح مسلم ( 1434 ) ۔

دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 3 / 50 - 51 ) ۔

اور امام طبری رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ان اقوال میں سے اقرب الی الصواب یہ ہے کہ ہروہ مولود جس کے نام میں اللہ تعالی کی معصیت ہو اوراللہ تعالی کوناپسند ہو ، یاپھراسے اللہ تعالی کے پسندیدہ دین کوچھوڑ کرکسی اوردین میں داخل کردے ، یا اس کی ماں سے زنا کرکے ، یا اسے قتل اور زندہ درگورکرکے، یاان کے علاوہ دوسرے کاموں کے ساتھ اللہ تعالی کی نافرمانی کی جاۓ ۔

توجس سے وہ بچہ پیداہوا یا جس کا وہ ہے اس کی وجہ سے وہ ابلیس کی مشارکت میں داخل ہوگیا ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا میں شرکت کےکسی معنی کوخاص نہیں کیا تو وہ کسی بھی لحاظ سے ہوسکتی ہے ، توجس میں اللہ تعالی کی نافرمانی ہو یااس کے ساتھ نافرمانی کی جاۓ ، یا اس کام میں شیطان کی بات مانی جاۓ ، یا اس کام سے شیطان کی اطاعت ہوتی ہو تواس میں شیطان کی مشارکت ہے ۔ تفسیر طبری ( 15 / 120 - 121 ) ۔

شیخ عبدالرحمن السعدی رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں :

اور ان کے اموال اور اولاد میں شریک ہوجا اس فرمان میں ہرقسم کی وہ معصیت جو اموال اوراولاد کے متعلق ہے شامل ہوتی ہے ، چاہے وہ زکاۃ کی ادائیگی نہ کرکے کی جاۓ ، اوریاپھر کفارات اورواجب حقوق کی ادائیگی نہ کی جاۓ ، اوریا اولاد کو ادب اورخیروبھلائ کی تعلیم نہ دے کرہو اور یا انہیں شرسے بچنا نہ سکھایا جاۓ ، اورلوگوں کا مال ناحق چھینا جانا یا اموال کو ناحق جگہ پرخرچ کرنا ، اور یا پھر ردی قسم کے کام کرنا ۔

بلکہ اکثر مفسرین نے اولاد و اموال میں شیطان کی مشارکت کا ذکر کرتے ہوۓ کہا ہے کہ کھانے پینے اورجماع کے وقت بسم اللہ نہ پڑھنا بھی مشارکت میں داخل ہے ، اس لیے کہ جب بسم اللہ نہ پڑھی جاۓ تو اس میں شیطان شرکت کرتا ہے جیسا کہ یہ حدیث میں بھی بیان کیا گيا ہے ۔ تیسیر الکریم الرحمن ( 414 )۔

میرا کہنا ہے کہ : جماع میں بسم اللہ نہ پڑھنے والے کے جماع میں شیطان کی مشارکت کے متعلق حدیث کا ذکرہوچکا ہے جو کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کے حوالہ سے بیان کی جاچکی ہے ، اور اسی طرح مجاھد رحمہ اللہ تعالی کی کلام بھی بیا ن کی جاچکی ہے ۔

خلاصہ :

اس آیت کی تفسیرمیں صحیح قول یہ ہے کہ اسے ان وجوھات پرمحمول کیا جاۓ جواوپربیان کی جا چکی ہیں ، جب کہ ان کے معانی میں کسی قسم کی کوئ منافات نہیں ، اورسلف نے ان میں سے ہرایک معنی کوانفرادی طور پرذکر کیا ہے ، اور ان معانی کے درمیان کوئ تضاد بھی نہیں ہے ۔

تو اس جیسی حالت میں قاعدہ یہ ہے کہ آیۃ کواس کے سب معانی پر محمول کیا جاۓ ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

سلف کاتفسیرمیں اختلاف بہت ہی کم ہے ، اوران کا احکام میں جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ تفسیر کی نسبت بہت ہی زیادہ ہے ، اورپھروہ اختلاف غالب طورپر نوع کا اختلاف ہے نا کہ اختلاف تضاد ، اوراس کی دوقسمیں ہیں :

پہلی قسم :

ان میں سے ہرایک اس کی مراد دوسرے کی عبارت سے علاوہ کرے جو مسمی میں پاۓ جانے والے معنی پردلالت کررہی ہو اور یہ معنی دوسرے معنی کے علاوہ ہو لیکن مسمی ایک ہی رہے ، ان اسماء کی جگہ جومترادف اور متباین کے درمیان ہیں ، جیسا کہ تلوار کے نام میں کہا جاتا کہ : الصارم ، المھند ؛ کاٹنے والی تلوار کو کہا جاتا ہے ۔

اور یہ اللہ تعالی کے اسماء حسنی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں اور قرآن کے ناموں کی طرح ہے ، کیونکہ سب کے سب اسماء حسنی ایک ہی مسمی پردلالت کرتے ہیں ، تو ان میں کسی ایک اسم کے ساتھ پکارنا دوسرے اسم کے مخالف ہیں ، بلکہ معاملہ اس طرح ہی ہے جس طرح کہ اللہ تبارکہ وتعالی نے فرمایا ہے :

کہہ دیجۓ کہ تم اللہ تعالی کویا رحمن کوپکارو جس کوبھی پکارواللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں

تو اللہ تعالی کے اسماء میں سے ہراسم مسمی ذات اور اس اسم میں پائ جانے والی صفت پردلالت کرتا ہے ، مثلا العلیم ، اللہ تعالی کی ذات اورعلم اور القدیر اللہ تعالی کی ذات اور قدرت ، اور الرحیم اللہ تعالی کی ذات اور رحمت پر دلالت کرتا ہے ۔

دوسری قسم :

یہ کہ ان میں سے ہرایک عمومی اسم کی کچھ انواع کو بطور مثال اور نوع کوسننے والے کی تنبیہ کے لیے بیان کرے نہ کہ تعریف کے طریقے پر جوکہ عموم وخصوص میں تعریف کی گئ چیز کے مطابق ہو ، مثلا کسی عجمی نے سوال کیا کہ خبز کیا ہے تو اس سے روٹی دکھا کراسے کہا یہ ہے ، تو یہ اشارہ اس کی نوع کی طرف ہے نہ کہ اس اکیلی روٹی کی طرف ۔

مجموع الفتاوی ( 13 / 333 - 337 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد