جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

اگر میت کی طرف سے صدقہ کرے تو کیا صدقہ کرنے والے کو صدقے کا اجر ملے گا؟!

219751

تاریخ اشاعت : 21-04-2023

مشاہدات : 2214

سوال

میت کی طرف سے صدقہ کرنے کے حوالے سے آپ کے جتنے بھی جوابات ہیں ان سب میں کچھ وضاحت طلب چیزیں ہیں کہ مجھے ایسی کوئی بات نہیں ملی کہ میت کی طرف سے صدقہ کرنے والے کو بھی کوئی اجر و ثواب ملے گا یا نہیں؟ اگر میت کی طرف سے صدقہ کرنے پر مجھے کوئی اجر نہیں ملے گا، سارا اجر میت کو ہی مل جائے گا تو میں حصولِ اجر کے لیے دوسروں کو اپنے آپ پر ترجیح کیوں دوں؟ کیونکہ مجھے سارے ثواب کی ضرورت ہو گی؛ کیونکہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ آخرت کے معاملات میں ایثار نہیں پایا جاتا۔ الغرض ، میرا بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں یہ سمجھتا تھا کہ جب میں میت کی طرف سے صدقہ کروں گا تو مجھے جتنا ثواب ملے گا اتنا ہی ثواب میت کو بھی ملے گا۔ لیکن اگر ایسا ہے ہی نہیں تو میں کسی اور کو اپنے آپ پر ترجیح کیوں دوں؟ یہ بات بھی واضح رہے کہ فوت شدہ والد کا اپنے بیٹے پر احسان بھی بہت بڑا ہوتا ہے کہ والد نے بیٹے کو پال پوس کر بڑا کیا ہوتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

میت کی طرف سے صدقہ کرنے پر صدقے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔

اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (42384 ) کے جواب میں گزر چکی ہیں۔

اسی طرح میت کی طرف سے صدقہ کرنے والے کو بھی اس صدقے کا ثواب ملے گا۔

اس کی دلیل صحیح مسلم: (1004) کی روایت ہے جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: "میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ اگر انہیں بولنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو مجھے بھی اس کا اجر ملے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:(جی ہاں)"
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں میت کی طرف سے صدقہ کرنے کا جواز اور استحباب ثابت ہوتا ہے، نیز یہ بھی کہ اس صدقے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور میت کو فائدہ دیتا ہے، نیز صدقہ کرنے والے کو بھی اس سے فائدہ ہو گا، ان مسائل پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے۔" ختم شد
" شرح صحيح مسلم " (11/ 84)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صدقہ کرنے سے میت کو فائدہ ہوتا ہے، اور صدقہ کرنے والے کے لیے بھی اتنے ہی اجر کی امید کی جا سکتی ہے جو میت کو ملے گا؛ کیونکہ یہ شخص میت کی بے لوث بھلائی کر رہا ہے ، اس لیے اس کے لیے بھی اسی اجر کی امید کی جا سکتی ہے جو میت کو ملے گا، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (جو شخص کسی نیکی کی رہنمائی کرے تو اس نیکی پر عمل کرنے والے کے برابر رہنمائی کرنے والے کو بھی اجر ملے گا) چنانچہ اگر مومن کسی خیر کی دعوت دے ، یا کسی دوسرے کا بھلا کرے تو اس کے لیے بھی اتنے ہی اجر کی امید کی جا سکتی ہے، لہذا اگر مسلمان اپنے فوت شدہ والد یا والدہ کی طرف سے صدقہ کرے، یا کسی اور کی طرف سے کرے تو میت کو جتنا ثواب ملے گا اتنا ہی اجر صدقہ کرنے والے کو ملے گا۔

اسی طرح اگر کوئی اپنے والد کی طرف سے یا والدہ کی طرف سے حج کرے تو ماں باپ کو حج کا اجر ملے گا نیز اتنا ہی یا اس سے بھی زیادہ اجر حج کرنے والے کو بھی ملے گا کیونکہ اس نے اچھا عمل بھی کیا ہے اور صلہ رحمی بھی کی ہے، نیز اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا ہے، دیگر مشروع اعمال میں بھی اسی طرح ہو گا، کیونکہ اللہ کا فضل بہت وسیع ہے۔

ایسے امور میں شرعی قاعدہ ہے کہ: دوسروں کا بھلا کرنے والے کا اجر بہت بڑا ہوتا ہے، اور اگر کوئی کسی میت کی طرف سے کوئی بھلائی کرے تو بھلا کرنے والے کے لیے بھی اتنے ہی اجر کی امید کی جا سکتی ہے جتنا میت کو اس بھلائی کا اجر ملے گا۔" ختم شد
" فتاوى نور على الدرب " (14/313)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب