جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی خواب

2202

تاریخ اشاعت : 16-06-2003

مشاہدات : 11305

سوال

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کے متعلق ایک سوال کا جواب پڑھا اتنا تومجھے علم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کا خواب دیکھا ، یعنی اللہ تعالی نے اس کا حکم دیا اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی عمر چھـ یا سات برس تھی ، اگر یہ معاملہ اسی طرح ہے توہمارے پاس اس کا منطقی جواب توہے لیکن کیا اس کی تائیید میں کوئ حدیث یا آیت نہیں ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


جس حدیث کی طرف آپ نے سوال میں اشارہ کیا ہے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح بخاری میں کچھ اس طرح نقل فرمایا ہے :

عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا :

( مجھے تودوبار خواب میں دکھائ گئ میں نے دیکھا کہ توایک ریشمی کپڑے میں تھی ( یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی ٹکڑے میں یا پھراسے ریشم کے کپڑے میں دیکھا ) اورکہا گيا کہ یہ آپ کی زوجہ ہے جب اس سے پردہ ہٹایاگيا تووہ توہی تھی ، میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے تواللہ تعالی اسے پایہ تکمیل تک پہنچاۓ گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3606 ) ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ :

یہ خواب بعثت کے بعد کی ہے اوریہ خواب وحی ہے جس کی تعبیر بھی ہے ( اوراس کی تعبیر میں ہی یہ حقیقت وقوع پزیرہوئ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کرلی ) ۔

اور یہ قول کہ تووہ تو ہی تھی ، سے ظاہرہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کو اس سے قبل دیکھا اورپہچانا تھا ۔دیکھیں فتح الباری ۔

اورحدیث میں اس بات کی کوئ دلیل نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی اس خواب کی وجہ سے نہیں ہوئ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح جس طرح کہ دوسری عورتوں کی منگنی ہوتی ہے ان کے والد کوشادی کا پیغام دیا اوران کے والد ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ نے ان سے شادی کردی یہ وہی شادی جوعادتا ہوتی ہے ، اور اس کا حدیث میں بھی ذکر ہے :

عروہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کے پاس عائشہ سے شادی کا پیغام بھیجا توابوبکررضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا میں تو آپ کا بھائ ہوں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہ اخوت تودینی اورکتابی ہے کہ تومیرا دین اورکتا ب کے اعتبارسے بھائ ہے اوروہ ( عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا ) میرے لیے حلال ہے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4691 ) ۔

ابن حجررحمہ اللہ تعالی اس کی شرح میں کہتے ہیں :

ابن ابی عاصم نے یحیی بن عبدالرحمن بن حاطب عن عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خولہ بنت حکیم کوابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کا پیغام دے کربھیجا ۔'

توابوبکرانہیں کہنے لگے کیا یہ اس کے لیے صحیح ہے وہ تواس کے بھائ کی بیٹی ہے ، تواس نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکرکیا تونبی صلی اللہ اسے فرمانے لگے :

جا‎ؤاسے جا کرکہو تم میرے اسلامی؛بھائ ہواورآپ کی بیٹی میرے لیے جائز ہے ، تومیں ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کےپاس آئ اورانہیں آکر سب کچھ بتایا تووہ کہنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبلاؤ‎ ، توآۓ اوران سے نکاح کرلیا ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کاجواب میں یہ فرمانا ( تومیرادینی اورکتابی بھائ ہے ) اللہ تعالی کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ سب مومن بھائ‏ بھائ ہیں وغیرہ ۔

اورنبی صلی اللہ کا یہ فرمان ( وہ میرے لیے حلال ہے ) اس کا معنی یہ ہے کہ باوجود اس کے وہ بھائ کی بیٹی ہے اس کےساتھ میرا نکاح کرنا حلال ہے کیونکہ نکاح میں مانع اخوت نسب اوررضاعت ہے نہ کہ اخوت دین ۔ انتھی ۔

اوروہ عورت جس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عقدنکاح اللہ تعالی کی جانب سےآسمان میں ہوا ، اوریہ نکاح عام طریقے سے ہٹ کرتھا وہ عورت زینب بنت جحش رضي اللہ تعالی عنہا تھیں ، اوراس کا حدیث میں کچھ اس طرح ذکر ملتا ہے :

انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ زینب رضي اللہ تعالی عنہا ازواج مطہرات کے سامنے اس پرفخر کیا کرتی تھیں کہ ان کی شادی توان کے گھروالوں نے کی اورمیری شادی اللہ تعالی نے ساتوں آسمان پرسے کی ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6870 ) ۔

تواس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے صرف زينب رضي اللہ تعالی عنہا ہی کا عقد نکاح اس خصوصی طریقہ سے ہوا ، توہم عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی شادی کے بارہ میں اوپروالے سوال کے جواب کی طرف لوٹیں جوکہ اوپربیان ہو چکا ہے ۔

بھائ صاحب اللہ تعالی آپ کویہ سوال کرنے پر جزاۓ خیر عطا فرماۓ آمین یا رب العالمین ۔

واللہ تعالی اعلم  .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد