اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

رمضان میں شیاطین کو جکڑنے کی حکمت

221162

تاریخ اشاعت : 04-07-2015

مشاہدات : 15673

سوال

ماہ رمضان میں شیاطین کو کیوں جکڑا جاتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

رمضان میں شیاطین کو جکڑنا متعدد احادیث سے ثابت ہے، جن میں سے چند یہ ہیں:

صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب رمضان شروع ہو تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے)بخاری: (3277) مسلم: (1079) مسلم کی ایک روایت  میں ہے کہ: (شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے)

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک یہ بھی حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب ماہ رمضان کی پہلی رات  ہو تو شیاطین اور سرکش جن  جکڑ دیے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا، جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں کوئی دروازہ بھی ان میں سے بند نہیں رہتا۔۔۔) الحدیث، ترمذی: (682) ابن ماجہ: (1642) اسے البانی رحمہ اللہ نے  "صحیح الجامع": (759) میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوم:
رمضان میں جنت کے دروازوں کے کھولے جانے ، جہنم کے دروازوں کے بند کیے جانے  اور شیاطین کو جکڑنے سے متعلق صحیح بات یہی ہے کہ اس بات کو حقیقت پر محمول کیا جائے گا، اور یہی بات حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ جنت حقیقت میں رمضان کے دوران کھلتی ہے، اور جہنم کے دروازے بند کیے جاتے ہیں، اسی طرح شیاطین کو بھی زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے۔
کیونکہ اصول یہ ہے کہ کلام کو ظاہر اور حقیقت پر محمول کیا جائے گا، یہاں تک کہ کوئی دلیل ظاہر سے پھیرنے کیلئے نہ مل جائے۔

شیخ تقی الدین ابراہیم بن مفلح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شیطانوں کو رمضان میں  حدیث کے ظاہری مفہوم کے مطابق جکڑ بند کر دیا جاتا ہے، یا پھر  ان شیاطین سے مراد سرکش شیاطین ہیں، یہی موقف ابو حاتم، ابن حبان اور دیگر اہل علم نے اپنایا ہے، چنانچہ اس میں یہ بات ہر گز نہیں ہے کہ شر بالکل ختم ہو جاتا ہے؛ بلکہ  یہاں یہ بات ہے کہ شر کم  ہو جاتا ہے، کیونکہ شیاطین کمزور پڑ جاتے ہیں، امام احمد نے اس حدیث کو ظاہر پر ہی محمول کیا ہے، چنانچہ عبد اللہ بن امام احمد کہتے ہیں:
"میں نے اپنے والد سے کہا:  مجنون شخص کو ماہ رمضان میں بھی دورہ کیوں پڑ جاتا ہے؟!
تو انہوں نے کہا: "حدیث میں ایسے ہی آیا ہے اس بارے میں مزید گفتگو مت کرو"
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام احمد کا موقف یہ ہے کہ جن احادیث کی سلف نے تاویل کی ہے ان کے علاوہ کسی بھی حدیث کی بھی تاویل نہ کی جائے " انتہی
ماخوذ از: "مصائب الإنسان من مكائد الشيطان" از ابن مفلح: (ص 144)

ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: "جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں" یہ حقیقت پر مبنی ہے، حدیث میں مذکور دیگر امور بھی حقیقت ہیں، ہم نے پہلے شیاطین کے  بارے میں ذکر کیا ہے کہ ان کا جکڑا جانا بھی حقیقت ہے، چنانچہ جب انہیں پابند سلاسل کیا جاتا ہے تو ان کی طرف سے ملنے والی اذیت اور وسوسوں میں کمی آتی ہے، اور ان کی سرگرمیاں غیرِ رمضان کے مقابلے میں رمضان کے اندر بہت محدود ہوتی ہیں، اور سرکش شیطانوں کے  جکڑے جانے کی دلیل یہ ہے کہ رمضان میں گناہگار لوگ بھی اطاعت گزاری میں مصروف ہو جاتے ہیں، اور اپنی شہوانی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں، یہ ایک مشاہداتی واضح دلیل ہے" انتہی
" التوضيح لشرح الجامع الصحيح " (13/ 56)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے رمضان المبارک  کے ایام سے متعلق استفسار کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس ماہ میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) لیکن اس کے با وجود لوگوں کو جنوں کے دورے پڑتے ہیں؛ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کے دورے بھی پڑیں اور شیاطین جکڑے ہوئے بھی ہوں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اس حدیث کے بعض الفاظ میں یہ بھی ہے کہ : (سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) اور نسائی کی حدیث میں ہے کہ(بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں) اس قسم کی احادیث غیبی امور سے متعلق ہیں ، اور غیبی امور کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ جیسے بیان ہوں ویسے ہی تسلیم  کر لیا جائے اور انہیں مبنی بر حق مانا جائے، نیز اس بارے میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی موقف کی بنا پر ہر آدمی کا دین سلامت اور انجام بہتر ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن امام احمد بن حنبل نے اپنے والد سے کہا: "انسان کو رمضان میں بھی جنات کے دورے پڑتے ہیں" تو انہوں نے کہا: "حدیث میں ایسے ہی آیا ہے، اس بارے میں مزید بات مت کرو" ویسے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے سے انہیں روک دیا جاتا ہے اور یہ بات مشاہدے میں بھی ہے کہ لوگ کثرت کیساتھ خیر چاہتے ہیں، اور رمضان میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں" انتہی
" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (20/ 75)

مندرجہ بالا بیان کے بعد شیاطین کو جکڑنا حقیقت پر مبنی ہے، اور اللہ تعالی کو اس بارے میں حقیقی علم ہے، تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ شیاطین  کی تاثیر بالکل ختم کر دی جاتی ہے، یا اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے جناتی دورے، یا جنوں کی وجہ سے انسانوں کا نقصان  نہ ہو، یا لوگ بالکل ہی گناہ کرنا چھوڑ دیں۔
بلکہ یہاں مطلب یہ ہے کہ رمضان میں انہیں کمزور کر دیا جاتا ہے، اور رمضان میں ان کی قوت اتنی نہیں ہوتی جیسے رمضان سے پہلے ہوتی ہے۔

چنانچہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر یہ کہا جائے کہ: ہم رمضان میں بھی بہت سے برائیاں اور گناہ کے کام ہوتے دیکھتے ہیں، اگر شیاطین حقیقت میں  جکڑے ہوئے ہوتے تو برائی سرے سے نہ ہوتی!؟
اس کا جواب کئی انداز سے دیا جا سکتا ہے:

1- شیاطین کو ایسے روزے  داروں تک رسائی سے روک دیا جاتا ہے جنہوں نے روزے کی شرائط اور مکمل آداب کو ملحوظ رکھا، چنانچہ ایسے روزے دار جنہوں نے شرائط یا آداب  کا خیال نہیں رکھا ان سے شیاطین کو نہیں روکا جاتا۔

2- اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ تمام روزے داروں تک شیاطین کی رسائی نہیں ہوتی ، لیکن پھر بھی تمام شیاطین کے جکڑے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ گناہ سرے سے ہی ختم ہو جائیں، کیونکہ گناہوں کے رونما ہونے کے شیاطین کے علاوہ بھی بہت سے  اسباب ہیں، جن میں خبیث لوگ، بری عادات، اور انسانی  شکل میں شیاطین  بھی شامل ہیں۔

3- یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں اکثر شیاطین اور سرکش قسم کے شیطانوں کے بارے میں کہا گیا ہو، چنانچہ یہ ممکن ہے کہ غیر  سرکش  شیطان کو نہ جکڑا جاتا ہو۔

مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ: شر کے ذرائع کم سے کم ہو جاتے ہیں اور یہ بات رمضان میں بالکل واضح ہوتی ہے؛ کیونکہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت اس ماہ میں گناہوں کی مقدار بہت کم ہوتی ہے" انتہی
" المفهِم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم" (3/ 136)

سوم:

اہل علم نے رمضان میں شیاطین کو جکڑنے کی حکمتیں بھی بیان کی ہیں جن میں کچھ یہ ہیں:
لوگوں کو گمراہ کرنے کے واقعات اور شر میں کمی ہونا، مسلمانوں کو ایذا رسانی اور روزہ  خراب کرنے سے روکنا، تا کہ رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں جہاں تک ان کی رسائی ہوتی ہے وہاں تک رمضان میں ان کی رسائی ممکن نہ ہو، کیونکہ شیاطین دیگر مہینوں میں لوگوں کو گمراہ کر کے بہت سی نیکیوں  سےان کا منہ موڑ دیتے ہیں، جبکہ رمضان میں ان کے جکڑے جانے سے لوگ اطاعت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ماہ رمضان میں  ہر قسم کی شہوت پرستی سے باز رہتے ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ اس لیے ہے کہ ماہ رمضان میں دل  نیکی، اور اعمال صالح کی طرف لپکتے ہیں، جن کی وجہ سے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور دل گناہوں سے بچتے ہیں اسی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ ایسے کار نامے سر انجام نہیں دے پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جکڑا ہوا قید ہوتا ہے، اور شیاطین کیلئے بنی آدم کو گمراہ کرنے کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب بنی آدم شہوت کی گرفت  آجائے، چنانچہ جس قدر بنی آدم شہوت سے دور رہتے ہیں شیاطین جکڑ بندی کی حالت میں ہی رہتے ہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" (14/167)

ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب رمضان شروع ہو جائے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند  کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے)؛ کیونکہ شیاطین کے چلنے کی جگہ خون  ہوتا ہے، اور شیاطین کیلئے وہی تنگ کر دیا جاتا ہے، جب شیاطین تنگ ہوتے ہیں تو دل نیکی کرنے کیلئے لپکتے ہیں، اور انہی نیکیوں کی وجہ سے ہی جنت کے دروازے کھلتے ہیں، اور دل برائی سے بچتے ہیں جس کی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو پا بند سلاسل کر دیے جانے کی وجہ سے ان کی قوت، نشاط کمزور پڑ جاتی ہے، چنانچہ رمضان میں وہ کچھ نہیں کر پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں، [غور کی بات یہ ہے کہ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ انہیں قتل کر دیا جاتا ہے، یا مار دیا جاتا ہے، بلکہ فرمایا: (جکڑ دیا جاتا ہے) اور جکڑا ہوا شیطان بھی اذیت پہنچا سکتا ہے اگرچہ یہ اذیت غیر رمضان کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے؛ اور شیطانی اذیت میں کمی روزے کے معیار پر منحصر ہے، چنانچہ جس شخص کا روزہ کامل ہوگا شیطان اس سے دور بھاگے گا، لیکن ناقص روزے والے سے زیادہ دور نہیں جائے گا، یہ بات روزے دار کو کھانے پینے سے روکنے کیلئے بالکل واضح معلوم ہوتی ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (25/246)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں اشارہ ہے کہ اب مکلف شخص کیلئے کوئی عذر باقی نہیں رہا، گویا کہ مکلف شخص سے کہا جا رہا ہے کہ: "تم سے شیاطین کو دور باندھ دیا گیا ہے، اب گناہ کرنے اور نیکی چھوڑنے کے بارے میں یہ حجت نہیں بنا سکتے کہ شیطان نے گمراہ کر دیا"" انتہی
" فتح الباری" از: ابن حجر (4/ 114)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ اللہ تعالی کی تمام مسلمانوں کیلئے امداد ہے کہ اللہ تعالی نے ان کے دشمن  کو باندھ دیا ہے جو اپنے ماننے والوں کو جہنم کا ایندھن بننے کی دعوت دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیک لوگ اس ماہ میں دیگر مہینوں کی بہ نسبت زیادہ  نیکی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور گناہوں سے بچ کر رہتے ہیں" انتہی
"مجالس شهر رمضان" از: ابن عثیمین (ص 8) کچھ تصرف کیساتھ۔

مزید کیلئے دیکھیں:
"شرح صحیح البخاری" از: ابن بطال (4 /20) ، " إكمال المُعْلِم بفوائد مسلم" از: قاضی  عیاض (4 /5) ، " المفهِم " از: ابو  العباس قرطبی (3/ 136) ، " التوضیح لشرح الجامع الصحیح "از: ابن ملقن (13/ 56) ، " مرقاة المفاتیح " از: ملا علی القاری (4/ 1364) ، " التنوير شرح الجامع الصغیر" از: صنعانی (2 /41)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب