الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو شفائے کاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔
دوم:
آپ بیماری کی وجہ سے ماہ رمضان میں روزے چھوڑ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے، پھر اگر بعد میں روزے رکھنے کی استطاعت پیدا ہو جائے تو پھر ان کی قضا دے دیں، تاہم اگر بعد میں بھی روزے رکھنے کی استطاعت پیدا نہ ہو تو پھر ہر ایک دن کے بدلے آپ کسی مسکین کو کھانا کھلا دیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"روزے رکھنے سے عاجز شخص پر روزے فرض نہیں ہیں؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ )
ترجمہ: اور جو کوئی [ماہِ رمضان میں ]مریض ہو یا سفر پر ہو تو دیگر ایام میں [روزوں کی]تعداد[پوری کرے]۔البقرة ( 185 )
خوب بحث و تمحیص کے بعد یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ عاجز دو قسم کے ہوتے ہیں: وقتی اور دائمی۔
وقتی یہ ہے کہ : کوئی شخص وقتی طور پر روزہ رکھنے سے عاجز ہو، لیکن بعد میں روزے رکھنے کی امید کی جا سکتی ہو، سورہ بقرہ کی مذکورہ آیت میں یہی شخص مراد ہے، لہذا وقتی طور پر روزے رکھنے سے عاجز شخص جب روزہ رکھنے کی استطاعت پا لے تو روزوں کی قضا دے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی: (فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) "دیگر ایام میں [روزوں کی]تعداد[پوری کرے]" کا یہی مطلب ہے۔
جبکہ دائمی عاجز سے مراد وہ شخص ہے جس کی عاجزی ختم ہونے کی امید نہ ہو۔۔۔ ایسے شخص پر ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا واجب ہے"انتہی
" الشرح الممتع " ( 6 / 324 – 325 )
دوم:
مسلمان نماز تراویح چاہے مسجد میں پڑھے یا گھر میں ہر دو حالت میں اس کیلیے تراویح کا ثواب لکھا جاتا ہے، اگرچہ تراویح کی نماز گھر میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔
اور اگر کوئی شخص ہر سال مسجد میں جا کر تراویح پڑھنے کی پابندی کرتا تھا لیکن بیماری کی وجہ سے گھر پڑھنے لگا تو اللہ تعالی اسے مسجد میں تراویح پڑھنے کا پورا ثواب عطا فرمائے گا۔
چنانچہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب بندہ بیمار ہو یا مسافر ہوتو اللہ تعالی اس کیلیے اتنا ہی ثواب لکھتا ہے جتنا وہ تندرستی اور مقیم ہونے کی حالت میں عمل کیا کرتا تھا) بخاری: (2996)
سوم:
جس شخص کا قیام اللیل مرض یا نیند یا کسی بھی عذر کی وجہ سے رہ جائے تو وہ اس کیلیے دن کے وقت اس کی قضا دے۔
چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری وغیرہ کی وجہ سے جب رات کی نماز رہ جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دن کے وقت بارہ رکعات ادا کرتے تھے" مسلم: (746)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں دلیل ہے کہ نفلی نمازوں کا بھر پور اہتمام کیا جائے اور اگر کوئی رہ بھی جائے تو اس کی قضا دی جائے" انتہی
" شرح صحیح مسلم " ( 6 / 27 )
چنانچہ آپ جس قدر آپ رات کو نماز پڑھتے تھے آپ اس کی قضا دیں اور اس سے ایک رکعت زائد پڑھیں تا کہ وتر نہ ہوں کیونکہ وتر صرف رات کے وقت ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم.