اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

پاک اور نجس حیوانات کون کونسے ہیں؟

سوال

کون سے جانور پاک ہیں اور کون سے جانور پلید ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شرعی طور پر مسلمہ بات ہے کہ: جاندار اور غیر جاندار چیزوں میں اصل طہارت ہے، چنانچہ کسی بھی چیز کے نجس ہونے کا حکم تبھی لگایا جائے گا جب کوئی شرعی دلیل اس کی نجاست کے بارے میں پائے جائے گی۔

جانداروں کی مختلف اقسام اور اجناس ہیں، ان کی طہارت اور نجاست کے حوالے سے اہل علم کی مختلف آرا ہیں، ان کے بارے میں گفتگو کو اجمالی طور پر درج ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

1-ہر وہ جانور جو ماکول اللحم ہے تو وہ طاہر ہے، اس پر علمائے کرام کا اجماع ہے۔

چنانچہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہر وہ جانور جس کا گوشت کھایا جاتا ہے تو اس کے پاک ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَيُحِلُّ لَهُمْ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمْ الْخَبَائِثَ ترجمہ: وہ ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کے حلال اور گندی چیزوں کے حرام ہونے کا فیصلہ سناتا ہے۔[الأعراف: 157] لہذا ہر ایک حلال جانور پاکیزہ ہوتا ہے، اور ہر ایک پاکیزہ چیز نجس نہیں ہوتی بلکہ وہ طاہر ہوتی ہے۔" ختم شد
" المحلى " (1/129)

ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ: ماکول اللحم جانور کا جوٹھا پانی پاک ہے، اسے پینا جائز ہے، اور اسے طہارت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔" ختم شد
" الأوسط " (1/299)

2-کوئی بھی جانور جس میں بہنے والا خون نہیں ہے، تو وہ بھی پاک ہے، اس میں مکھی، ٹڈی، چیونٹی، شہد کی مکھی، بچھو، بھونرا ، کاکروچ، مکڑی وغیرہ شامل ہیں، ان کے پاک ہونے کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے کہ: (جب مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں گر جائے تو اس ساری کو ڈبو دے، اور پھر اسے نکال پھینکے؛ کیونکہ اس کے ایک پر میں شفا ہے اور دوسرے میں بیماری ہے۔) بخاری: (5782) چنانچہ اگر مکھی ناپاک ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ڈبونے کا حکم کبھی نہ دیتے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بہت ہی واضح دلیل ہے کہ جب مکھی کسی پانی یا مائع چیز میں ڈوب کر مر جائے تو اسے نجس نہیں کرے گی، یہی موقف جمہور اہل علم کا ہے، سلف صالحین میں اس کا کوئی مخالف نہیں ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مکھی کو ڈبونے کا حکم دیا ہے، یعنی کھانے میں اسے ڈبو دیا جائے، اور ڈبونے سے سب کو پتہ ہے کہ مکھی مر جائے گی، خصوصی ایسی صورت میں جب کھانا گرم بھی ہو، چنانچہ اگر مکھی کے مرنے سے کھانا نجس ہونا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھانے کے ناقابل تناول ہونے کا حکم دیتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی اس کھانے کو قابل تناول بنانے کا طریقہ بتلایا ہے۔

پھر یہی حکم کسی بھی ایسی چیز کا بنا دیا گیا جس میں بہنے والا خون نہ ہو، مثلاً: شہد کی مکھی، بھڑ، اور مکڑی وغیرہ ۔" ختم شد
" زاد المعاد " (4/101)

3-ایسے حیوانات جو لوگوں کے درمیان رہتے ہیں، اور ان سے بچنا مشکل ہوتا ہے، وہ بھی پاک ہیں چاہے وہ غیر ماکول اللحم کیوں نہ ہوں، یا ان کا تعلق درندوں سے کیوں نہ ہو۔

اس میں : بلی، گدھا، خچر، چوہا اور دیگر ایسی جانور شامل ہیں جو گھروں میں رہتے ہیں۔

اس کی دلیل سیدہ کبشہ بنت کعب بن مالک رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ وہ ابن ابی قتادہ کے عقد میں تھی تو ابو قتادہ اس کے پاس گھر آئے، کبشہ نے ان کے لیے وضو کا پانی بھر کر رکھ دیا، تو ایک بلی آئی اور اسی پانی میں سے پینے لگی، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بلی کے لیے برتن جھکا دیا تا کہ وہ تسلی سے پانی پی لے، تو کبشہ کہتی ہیں: ابو قتادہ نے مجھے دیکھا کہ میں انہیں دیکھ رہی ہوں! تو ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بھتیجی کیا آپ کو تعجب ہو رہا ہے؟ تو میں نے کہا: جی ہاں، تو اس پر انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ بلی نجس نہیں ہے، یہ تم پر چکر لگانے والے نر اور مادہ جانداروں میں سے ہے۔) اس حدیث کو سنن اربعہ نے روایت کیا ہے نیز اسے امام بخاری، ترمذی ، عقیلی اور دارقطنی رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
چکر لگانے والی کا مطلب یہ ہے کہ: ایسے جانداروں سے بچاؤ ممکن نہیں ہے، یہ ہمارے آس پاس ہی رہتے ہیں۔" ختم شد
" التمهيد" (1/319)

"حدیث میں مذکور مذکر لفظ: {الطوافون} سے مراد انسان ہیں کہ یہ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، جبکہ { الطوافات} سے مراد جاندار مویشی وغیرہ ہیں جو عام طور پر لوگوں کے آس پاس ہوتے ہیں، مثلاً: بکری، گائے، اونٹ وغیرہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلی کو بھی انہی دونوں میں شامل فرمایا؛ کیونکہ بلی لوگوں کے ساتھ مانوس ہوتی ہے اور گھروں میں آتی جاتی رہتی ہے، پھر دونوں عربی الفاظ مبالغے کے صیغے ہیں جو کہ کثرت پر دلالت کرتے ہیں۔" ختم شد
" شرح سنن أبو داود" از علامہ عینی: (1/220)

"اشارہ فرمایا کہ بلی کے نجس نہ ہونے کی وجہ بلی کے کثرت سے گھروں میں آنے جانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی ضرورت ہے۔ کیونکہ بلیوں سے برتنوں کو بچانا مشکل ہوتا ہے۔ تو مطلب یہ ہے کہ بلیاں تمہارے گھروں اور رہائشوں میں پھرتی ہیں، تو یہ تمہارے کپڑوں اور جسم سے لگ جاتی ہے، تو اگر بلی نجس ہوتی تو میں تمہیں بلی سے دور رہنے کا حکم دیتا۔" ختم شد
" عون المعبود " (1/141)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شریعت نے ہمیں جو حکم دیا ہے اس میں بہت بڑی حکمت اور مصلحت ہے؛ کیونکہ اگر شریعت بلی کو نجس قرار دے دیتی تو پھر اس میں امت کے لیے بہت زیادہ مشقت بھی تھی اور حرج بھی تھا؛ کیونکہ بلیاں لوگوں میں دین رات پھرتی رہتی ہیں، لوگوں کے بستروں اور کپڑوں پر بیٹھ جاتی ہیں اور کھانے میں بھی شریک ہو جاتی ہیں۔" ختم شد
" إعلام الموقعين " (2/172)

بلی کے پاک ہونے کا موقف: "مدینہ، کوفہ، شام ، حجاز، عراق اور تمام محدثین کا موقف ہے۔" ختم شد
" الأوسط " لابن المنذر (1/276)

چنانچہ اگر بلی کسی برتن سے پانی پی لے یا کھانا کھا لے تو وہ نجس نہیں ہو گا۔

لہذا بلی پر دیگر ان جانوروں کو قیاس کیا جائے جو بلی کی طرح گھروں میں رہتے ہیں۔

چنانچہ جو چیز بھی لوگوں میں ہی گھومتی پھرتی ہو ؛ اور اس سے بچنا مشکل بھی ہو، تو اس کا حکم بلی والا ہی ہے، تاہم اس سے ان تمام جانوروں کو مستثنی قرار دیا جائے گا جس کو شریعت نے مستثنی قرار دیا ہے، یعنی کتا؛ کیونکہ کتا بھی لوگوں میں گھومتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود کتا نجس ہے۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ: بلی کی طہارت کا حکم اس سے بچنے میں مشقت کی وجہ سے ہے؛ کیونکہ بلی ہمارے گھروں میں بہت زیادہ آتی جاتی ہے، تو اگر بلی نجس ہوتی تو یہ لوگوں کے لیے بہت گراں ہوتا۔ تو بلی کے حکم کا اصل محور: لوگوں کے گھروں میں کثرت سے آنا جانا کہ جس سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ مشقت ہو؛ لہذا کوئی بھی ایسی چیز جس سے بچاؤ مشکل ہو تو وہ طاہر ہے۔

لہذا: خچر اور گدھا بھی طاہر ہیں، یہی موقف راجح بھی ہے اس موقف کو متعدد علمائے کرام نے اختیار کیا ہے۔" ختم شد
" الشرح الممتع " (1/444)

اہل علم کے صحیح ترین موقف کے مطابق : گدھے اور خچر کے جوٹھے اور پسینے کے پاک ہونے کا حکم بلی پر قیاس کی وجہ سے ہے، اور یہی موقف مالکی اور شافعی فقہائے کرام کا ہے، انہوں نے اپنے اس موقف کی مذکورہ علت ہی ذکر کی ہے، نیز لوگوں کو بھی ان پر سواری اور بار برداری کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (1/68)میں کہتے ہیں:
"میرے ہاں صحیح موقف یہ ہے کہ: خچر اور گدھا دونوں ہی پاک ہیں؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان پر سواری کیا کرتے تھے، بلکہ آپ کے عہد میں انہیں بطور سواری عام استعمال کیا جاتا تھا، پھر صحابہ کے دور میں بھی انہیں بطور سواری استعمال کیا گیا، لہذا اگر یہ نجس ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ ضرور بیان فرماتے؛ نیز ان کے مالکان ان سے اپنے آپ کو بچا بھی نہیں سکتے اس طرح یہ بلی کے مشابہ ہوئے ۔" ختم شد
الشیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بلا شک و شبہ صحیح موقف یہ ہے کہ: خچر اور گدھا دونوں ہی زندہ ہوں تو بلی کی طرح پاک ہیں، اس طرح ان کا لعاب اور پسینہ بھی پاک ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم بہت زیادہ ان پر سواری کیا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں لوگ بھی انہیں سواری کے طور پر استعمال کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلی کے بارے میں فرمایا: (یہ تمہارے پاس بار بار آنے جانے والوں میں سے ہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلی کی طہارت کا حکم بار بار آنے کی وجہ سے اور پھر اس سے بچاؤ ممکن نہ ہونے کی وجہ سے بیان فرمایا، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ عدم بچاؤ کی مشقت گدھے اور خچر میں زیادہ ہے۔" ختم شد
"المختارات الجلية" (صـ 27)

4-کتا اور خنزیر دونوں ہی نجس ہیں

خنزیر کی نجاست کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ:  قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ
 ترجمہ: آپ ان سے کہئے کہ : جو وحی میری طرف آئی ہے اس میں میں تو کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جو کھانے والے پر حرام کی گئی ہو الّا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کیونکہ وہ نا پاک ہے ۔[الانعام: 145]

تو اس کے نجس ہونے کا موقف جمہور سلف و خلف اہل علم کا ہے۔

ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اتفاق ہے کہ خنزیر کا گوشت، چربی، چکناہٹ، مڑکنی ہڈی، دماغ اور پٹھے سب ہی حرام ہیں اور سب ہی نجس بھی ہیں۔" ختم شد
" مراتب الإجماع " (صـ23)

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن المنذر رحمہ اللہ نے خنزیر کے حرام ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، تو خنزیر کے ناپاک ہونے پر یہ بہترین دلیل ہے بشرطیکہ اجماع ثابت ہو جائے، لیکن امام مالک رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ خنزیر اگر زندہ ہے تو پاک ہے۔" ختم شد
" المجموع " (2/568)

اور کتے کے نجس ہونے کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان میں ہے کہ: (جب تمہارے برتن میں کوئی کتا منہ مار جائے تو اسے پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ: اس برتن کو سات بار دھویا جائے اور پہلی بار مٹی سے دھوئیں۔) صحیح مسلم: (279)

علامہ خطابی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث مبارکہ میں یہ فقہی مسئلہ بیان ہوا ہے کہ کتا ذاتی طور پر نجس ہے؛ کیونکہ اگر کتا ذاتی حیثیت میں نجس نہ ہوتا تو جس برتن میں کتے نے منہ مارا ہے اسے پاک کرنے کا حکم دینا بالکل بے مقصد تھا؛ کیونکہ طہارت کا عمل اس کے لیے ہوتا ہے جو بے وضو ہو، یا کسی چیز کی نجاست زائل کرنا مقصود ہو۔ اب برتن کو تو طہارت یعنی وضو کی ضرورت نہیں ہوتی تو باقی یہی بچ جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نجاست زائل کرنے کے لیے برتن کو پاک کرنے کا حکم دیا ہے۔
اور جب یہ ثابت ہو گیا کہ جس زبان سے کتا پانی پیتا ہے وہ نجس ہے اور ایسے برتن کو پاک کرنا ضروری ہے تو اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کتے کے بقیہ اعضا بھی زبان جیسے ہی نجس ہیں، لہذا کتا اپنے کسی بھی عضو سے برتن کو چھوئے تو اس برتن کو پاک کرنا واجب ہو گا۔" ختم شد
" معالم السنن " (1/39)

کچھ علمائے کرام کہتے ہیں کہ: حدیث مبارکہ میں صرف کتے کے لعاب، تھوک اور منہ کے نجس ہونے کی دلیل ہے، جبکہ کتے کا بقیہ سارا جسم اصلی حکم یعنی طہارت پر قائم ہو گا، یہ حنفی فقہائے کرام کا موقف ہے اور اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنایا ہے ۔ ختم شد
" مجموع الفتاوى " (21/530)

جبکہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے صراحت سے کہا ہے کہ کتے کے سارے جسم پر نجاست کا حکم لگانا علمائے کرام کا ذاتی اجتہاد ہے، یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے نصاً ثابت نہیں ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں: "اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نجس صرف وہی چیز ہے جو منہ سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ کتے کے جسم کے بقیہ اعضا کو استنباط کے ذریعے نجس قرار دیا گیا ہے۔" ختم شد
" إحكام الأحكام " (صـ 24)

کتے کے مکمل طور پر نجس ہونے کا موقف شافعی اور حنبلی موقف ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/67)میں کہتے ہیں:
"کتا اور خنزیر : دونوں کے تمام اجزا اور فضلات اور ان کے جسم سے الگ ہونے والی چیزیں سب نجس ہیں۔" ختم شد
یہی موقف دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (23/89)میں اختیار کیا گیا ہے : "کتا سارے کا سارا نجس ہے اور اس کا لعاب بھی نجس ہے۔" ختم شد

5-کوئی بھی ایسا جانور جو مذکورہ اقسام میں شامل نہیں ہوتا، چاہے اس کا تعلق درندوں سے ہو جیسے کہ شیر، چیتا، فہد اور بھیڑیا وغیرہ۔۔۔ یا شکاری پرندے ہوں جیسے کہ باز، گدھ اور عقاب وغیرہ ۔۔۔ یا غیر ماکول اللحم ہو اور شکاری جانور بھی نہ ہو جیسے کہ ہاتھی اور بندر وغیرہ تو ان کے حکم میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔

چنانچہ مالکی فقہائے کرام کے ہاں تمام کے تمام زندہ جانور پاک ہیں، ان میں سے کوئی بھی جانور مستثنی نہیں ہے۔

حنفی فقہائے کرام خنزیر کے لیے علاوہ ہر جانور کو پاک سمجھتے ہیں۔

جبکہ شافعی فقہائے کرام کتے اور خنزیر کے علاوہ ہر جانور کو پاک سمجھتے ہیں۔

اور حنبلی فقہائے کرام کے مطابق کتے، خنزیر اور پرندوں و جانداروں میں سے درندوں کے علاوہ تمام جانور پاک ہیں۔

ان جانوروں کی نجاست یا طہارت کے حوالے سے متعدد احادیث میں یہ بات ذکر ہوئی ہے، لیکن وہ ساری کی ساری روایات یا تو ضعیف ہیں یا پھر ان کو اس مسئلے میں دلیل بنانا صحیح نہیں ہے۔

ان جانوروں کی طہارت کی سب سے طاقتور ترین دلیل: اصل بنیادی حکم اور بلی پر قیاس ہے۔

ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب بلی کے بارے میں حدیث ثابت ہے کہ بلی پاک ہے، حالانکہ بلی خود بھی درندہ ہے، چیڑ پھاڑ کرتا ہے اور مردار بھی کھاتا ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ کوئی بھی زندہ جانور نجس نہیں ہوتا۔" ختم شد
" التمهيد " (1/336)

جبکہ ان جانوروں کے نجس ہونے کے لیے سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ:
1-نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بلی کے پاک ہونے کا حکم لگایا ہے حالانکہ بلی درندہ ہے اور اس کے پاک ہونے کا حکم اس لیے لگایا کہ بلی انسانوں کے گھروں میں آتی جاتی ہے، تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو جانور گھروں میں آنے جانے والے نہیں ہیں وہ سب کے سب نجس ہیں، وگرنہ بلی اور دیگر درندوں کا حکم ایک ہی ہونا چاہیے تھا، تو ایسی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس تعلیل کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔

2-سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، آپ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: آپ سے ایسے پانی کے بارے میں پوچھا گیا تھا جو کہ ویران جگہ میں ہے اور اسی پانی سے درندے اور چوپائے بھی پانی پیتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر پانی دو قلے ہو تو پلید نہیں ہوتا۔)

تو اگر درندوں کے پانی پینے سے پانی پلید نہ ہوتا تو ان کے سوال کا کوئی معنی ہی نہیں تھا، اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس انداز سے جواب دینے کا کوئی فائدہ تھا۔

چنانچہ ابن ترکمانی کہتے ہیں:
"اس حدیث کا ظاہری مفہوم درندوں کے جوٹھے کو نجس قرار دیتا ہے؛ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو اس شرط کو لگانے کا فائدہ ہی نہیں تھا، اور یہ شرط فضول میں بیان کی گئی ہوتی۔" ختم شد
" الجوهر النقي " (1/250)

علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث سے وہ شخص دلیل لے سکتا ہے جو درندوں کے جوٹھے کو نجس کہتا ہے؛ کیونکہ حدیث میں ہے کہ: (پانی پینے کے لیے درندے آتے ہیں۔)لیکن حقیقت میں یہ حدیث ایسی کسی بات کی دلیل نہیں ہے؛ کیونکہ درندے عام طور پر جب کسی چھوٹے کھالے وغیرہ سے پانی کے لیے آتے ہیں تو پانی میں گھس جاتے ہیں اور اس میں پیشاب بھی کرتے ہیں؛ حالانکہ عام طور پر ان درندوں کی ٹانگیں بھی نجاست سے پاک نہیں ہوتیں، تو اصل میں یہ سوال اس کیفیت کے بارے میں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عمومی قاعدہ بیان فرما دیا کہ: جب پانی کی مقدار دو قلے ہو تو نجاست کے گرنے سے پلید نہیں ہو گا، جبکہ صحرائی ٹوبوں اور چھوٹے کھالوں کا پانی دو قلوں سے کم نہیں ہوتا۔" ختم شد
" الإيجاز في شرح سنن أبي داود " (ص: 287)

اسی طرح عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قلتین کی حدیث درندوں کے جوٹھے کے نجس ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی؛ جیسے کہ کچھ لوگوں کا خیال ایسا ہی ہے۔ کیونکہ سوال کا مقصد یہ تھا کہ درندے عام طور پر پانی پینے آتے ہیں تو پانی میں گھس کر پیشاب بھی کرتے ہیں، اور درندوں کے اعضا پر بھی بول اور گوبر وغیرہ لگے ہوئے ہوتے ہیں، تو ایسی صورت میں پانی کا کیا حکم ہے؟" ختم شد
" مرعاة المفاتيح "(2/ 185)

درندوں کی طہارت کا موقف دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (5/380)میں الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کی صدارت میں اپنایا گیا ہے، چنانچہ انہوں نے کہا ہے کہ: "راجح موقف یہ ہے کہ بھیڑیا، چیتا اور شیر جیسے درندے اور باز و چیل جیسے شکار کرنے والے پرندے پاک ہوتے ہیں۔ ۔۔ یہی موقف شرعی دلائل کے مطابق بھی ہے۔"

اسی موقف کو الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے، چنانچہ آپ رحمہ اللہ نے کہا کہ: "صحیح موقف یہ ہے کہ درندے پاک ہوتے ہیں؛ کیونکہ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ درندے ناپاک ہوتے ہیں تو اس سے لوگوں کو بہت زیادہ مشقت ہو گی؛ کیونکہ صحرائی علاقوں میں پائے جانے والے کنووں میں کچھ ایسے بھی ہو تے ہیں جن میں پانی دو قلوں سے کم ہوتا ہے، اور یہ بات یقینی ہے کہ درندے اور پرندے اس پانی کو پینے کے لیے آتے ہیں، تو اگر ہم کہیں یہ تھوڑا سا پانی بھی ناپاک ہو چکا ہے تو اس سے لوگوں کو بہت زیادہ مشقت ہو گی، اور ہماری دانست کے مطابق نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب اس طرح کے پانی کے پاس سے گزرتے تھے تو وہاں سے وضو کر لیا کرتے تھے۔" ختم شد
" التعليقات على الكافي " (1/ 41)

مندرجہ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
تمام کے تمام جاندار زندہ ہوں تو سب کے سب ہی پاک ہیں، چاہے وہ ماکول اللحم ہوں یا درندے ہوں یا حشرات وغیرہ سے تعلق رکھتے ہوں، سوائے کتے اور خنزیر کے ؛ یہ دونوں نجس ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب