اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

حیض کی حالت میں روزے دار خاوند سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اسےشرمگاہ میں اپنے ہاتھ سے لمس کرکے جنسی تسکین دے

سوال

 میں نوجوان ہوں اور رمضان میں میری شادی ہوئی ہے، جس وقت میری بیوی حیض کی حالت میں ہو تو مجھ سے ہاتھ کیساتھ جنسی تسکین پہنچانے کا مطالبہ کرتی ہے، اور میرا روزہ ہوتا ہے، تو اگر مجھے حیض کی نجاست نہ لگے تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر عورت  حیض کی حالت میں ہو تو خاوند کے ہاتھ سے  جنسی تسکین  حاصل کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اس طرح  نجس خون کو ہاتھ لگے گا، تاہم  درمیان میں کوئی  حائل ہو تو پھر اس کی گنجائش ہے۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (152885) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ اگر خاوند کے ہاتھ کو نجاست نہ لگے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دوم:

روزے کی حالت میں  آدمی اپنی بیوی کیساتھ بوس  وکنار ، اور بغیر جماع کے مباشرت اور خوش طبعی کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوس و کنار کرتے اور مباشرت بھی کرتے تھے، تاہم  اگر  شہوت کی وجہ سے حرام کام میں ملوّث ہونے کا خطرہ ہو تو  پھر ایسا کرنا مکروہ ہے، اور اگر منی خارج ہو جائے تو بقیہ دن روزہ مکمل کرنا ہوگا، اور قضا بھی دینا ہوگی، تاہم  مذی خارج ہونے  روزہ نہیں ٹوٹتا۔
لہذا خاوند روزے کی حالت میں اپنی بیوی کیساتھ  خوش طبعی  کر سکتا ہے، بشرطیکہ  جماع نہ کرے اور یا منی خارج نہ ہو۔

مزید کیلئے سوال نمبر: (49614) اور (14315) کا مطالعہ کریں۔

چنانچہ اگر  آپ نجاست  سے بچ سکیں اور بیوی کیساتھ ہمبستری  کا خدشہ بھی نہ ہو یا بغیر جماع  کے منی خارج ہونے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو روزے کی حالت میں ایسا کر سکتے ہیں۔

سوم:

مناسب یہ ہے  ، بلکہ  آپ جیسے حال ہی میں شادی کرنے والے نوجوان  کیلئے یہ ضروری ہے کہ  اس عمل کو رات تک مؤخر کر لیں؛ کیونکہ نوجوان کیلئے اپنے آپ پر ضبط رکھنا اور اپنی  شہوت کنٹرول کرنا مشکل ہوتا ہے، بلکہ عین ممکن ہے کہ معاملہ الٹ ہو جائے اور  آپ حرام کام میں ملوّث ہو کر اپنی عبادت ہی خراب  کر لیں۔

اسی لئے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ: "آپ  روزے کی حالت میں بوس و کنار  اور خوش طبعی کرتے  تھے، پھر اس کے بعد انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو معاملہ اپنے ہاتھ سے باہر ہونے کا خدشہ نہیں ہوتا تھا، اسی طرح آپکو  حرام کام کا خدشہ بھی نہیں ہوتا تھا، چنانچہ صحیح بخاری: (1826) اور مسلم: (1106) میں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوس و کنار اور مباشرت کیا کرتے تھے؛ [کیونکہ] آپ اپنے نفس پر سب سے زیادہ  ضبط رکھتے تھے"

نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام شافعی اور دیگر [شافعی] فقہاء کہتے ہیں کہ: "جس شخص کو شہوت بھڑکنے کا خدشہ نہ ہو تو روزے کی حالت میں اس کیلئے بوسہ دینا حرام نہیں ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ بوسہ نہ لے، لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ : بوسہ دینا مکروہ ہے" یہ ضرور ہے کہ انہوں نے  بوسہ لینے کو بہتر نہیں کہا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بوس و کنار کی حد سے باہر نکلنے کا خدشہ  نہیں تھا، لیکن دیگر لوگوں کے بارے میں  حد سے تجاوز کرنے کا خدشہ باقی ہے، یہی وجہ ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا  نے فرمایاکہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نفس پر سب سے زیادہ  ضبط رکھتے تھے "
اور جس کی شہوت بھڑک اٹھے تو اس کے بارے میں ہمارے [شافعی] فقہاء کے ہاں صحیح یہی ہے کہ  ایسا کرنا اس کیلئے حرام ہوگا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ مکروہ تنزیہی ہوگا، قاضی کہتے ہیں:" متعدد صحابہ کرام، تابعین ، احمد، اسحاق، اور داود وغیرہ نے اسے  روزہ دار کیلئے مطلق جائز قرار دیا ہے، جبکہ مالک نے مطلق طور پر اسے مکروہ کہا ہے، اور ابن عباس، ابو حنیفہ، ثوری، اوزاعی اور شافعی کا کہنا ہے کہ: "نوجوان کیلئے مکروہ ہے، بوڑھے شخص کیلئے مکروہ نہیں ہے"  امام مالک سے بھی یہی موقف منقول ہے، لیکن ابن وہب نے امام مالک رحمہ اللہ سے فرض روزے کی بجائے نفل روزے میں اس کی اجازت نقل کی ہے۔۔۔ اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ  منی خارج نہ ہونے تک  اس سے روزہ باطل نہیں ہوگا" انتہی
" شرح مسلم"  از نووی رحمہ اللہ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بوس و کنار ایسے شخص کیلئے جائز ہے جو اپنے آپ پر مکمل ضبط رکھتا ہو، اور جسے حرام کام میں واقع ہونے کا خدشہ ہو تو اس کیلئے بوس و کنار جائز نہیں ہے" انتہی
"فتح الباری" از ابن حجر

نیز حائضہ خاتون کیساتھ مباشرت کی اجازت بھی  اسی صورت میں ہے جب  حد سے تجاوز کرنے کا خدشہ نہ ہو، اور اللہ کی طرف سے حرام کردہ کام میں  ملوّث ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔

چنانچہ بخاری: (296) میں عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : "جب ہم میں سے کوئی حائضہ ہوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیساتھ مباشرت کرنا چاہتے  تو آپ اسے سختی کیساتھ لنگوٹ باندھنے کا  حکم دیتے، اور پھر  اس کیساتھ مباشرت کرتے"  عائشہ رضی اللہ عنہا مزید کہتی ہیں:" تم میں  سے کون  اپنے نفس پر ضبط رکھتا ہے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے نفس پر ضبط رکھتے تھے!؟"

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار  عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں مذکور ہے، اسی طرح  ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ بیوی کے ناف سے گھٹنے تک ڈھانپنے والے  لباس پہننے  کے بعد مباشرت کرے،  یا حیض کے کافی دن گزر چکے ہوں اور خون بہت کم آ رہا ہو تو اندام نہانی  پر کپڑا ڈال کر مباشرت بھی کر سکتا ہے۔
بہت سے اہل علم کا یہ موقف ہے کہ حائضہ بیوی کیساتھ ناف  سے لیکر گھٹنے تک  خوش طبعی کرنا بھی حرام ہے، اگر اجازت ہے تو صرف شلوار کے اوپر اوپر سے ہے، یہی مالک، ابو حنیفہ، اور شافعی کا مشہور موقف ہے۔
مزید کیلئے آپ "فتح الباری" از ابن رجب: (2/27) اور اس کے بعد والے صفحات کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب