جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

جب بیوی نافرمانی اورسرکشی کرے توشرعی طور پرکیا کرنا چاہیے

22216

تاریخ اشاعت : 29-02-2004

مشاہدات : 19617

سوال

بیوی کی نافرمانی اورسرکشی کی حالت میں خاوند کو کیا کرنا چاہیے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

( اوراگر مرد اپنی بیوی کی نافرمانی کا خدشہ محسوس کرے ) یعنی اس میں نافرمانی کی علامات ظاہر ہوں کہ وہ اپنے آپ کوخاوند کے سپرد نہ کرے اوراسے استمتاع نہ کرنے دے ، یا پھر اس کی بات توتسلیم کرے لیکن بہت کوشش اورمجبور کرنے کے بعد تو اس حالت میں خاوند اسے :

( وعظ ونصیحت کرے گا ) وہ اس طرح کہ اسے اللہ تعالی سے ڈرائے اوراسے اللہ تعالی کے واجب کردہ احکام یاد دلائے کہ اللہ تعالی نے اس پر خاوند یہ حقوق رکھے ہيں اسے اس کی اطاعت کرنی چاہیے ، اگروہ نہیں کرے گی تواسے گناہ ہوگا اوراس کا حق نفقہ ساقط ہوجائے گا ۔

اورپھر خاوند کے لیے اسے بستر سے الگ کرنا اوراسے ہلکی سے مار کی سزا دینا بھی مباح ہوگا اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اوروہ عورتیں جن کی نا فرمانی سے تم ڈرتے ہو انہيں وعظ ونصیحت کرو النساء ( 34 ) ۔

( اوروعظ ونصیحت کے باوجود وہ نافرمانی اورسرکشی پر اصرار کریں اورخاوند کے ساتھ معاشرت کے لیے راضی نہ ہوں توپھر خاوند کےلیے جائز ہے کہ وہ اسے اپنے بستر سےالگ کردے )

اس لیے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

اورانہیں بستروں میں الگ کرکے چھوڑ دو النساء ( 34 ) ۔

( اوراگروہ اس علیحدگی کے بعد بھی اپنی نافرمانی پر اصرار کرے توپھر خاوند کے لیے مباح ہے کہ وہ بیوی کوہلکی سی مار کی سزا دے جواسے زخمی نہ کرے اورنہ ہی ہڈی وغیرہ توڑے ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

اورانہیں مارو النساء ( 34 ) ۔

( اوراگر ان دونوں کے درمیان مخالفت اورعلیحدگی ہونے کا خدشہ ہو ) یعنی علم ہوجائے ( توپھر کچھ لوگوں کوحاکم بنایا جائے یعنی خاوند اوربیوی دونوں کے خاندان میں سے اچھے اور مامون قسم کے لوگ بھیجے جائیں جواگرمناسب سمجھیں توانہیں آپس میں صلح کروا کر جمع کردیں اوراگریہ مناسب نہ ہوتو پھر ان دونوں میں علیحدگی کروا دیں ، توان دونوں میں سے جوبھی یہ فیصلہ کریں وہ خاوند اوربیوی کوتسلیم کرنا ہوگا ) ۔

اوروہ اس طرح کہ جب خاوند اوربیوی کے درمیان مخالفت پیدا ہوجائے اوردشمنی تک معاملہ چلا جائے توپھر دونوں جانبوں سے ایک ایک عادل مسلمان اورآزاد شخص کوحاکم بنا کر بھیجا جائے بہتر اوراولی تویہی ہے کہ دونوں ان کے خاندان میں سے ہوں اورخاوند اوربیوی کے رضامندی سے بھیجیں جائيں جوکہ ان کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد اگر توان کے درمیان صلح بہتر سمجھتے ہوں تو صلح کروا کرانہیں اکٹھا کردیں ، اوراگر وہ یہ دیکھیں کہ ان کی علیحدگی ہی بہتر ہے توپھر ان کے درمیان طلاق یا خلع کرکے علیحدگی کروائيں ، جوبھی یہ فیصلہ کریں گے وہ خاوند اوربیوی کوتسلیم کرنا ہوگا ۔

اس میں اصل اوردلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان ہے :

اگر تمہیں خاوند اوربیوی کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ان بن کا خدشہ ہو توایک منصف مرد والوں اورایک مرد عورت والوں کے گھروالوں کی طرف سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ تعالی دونوں میں ملاپ کرا دے گا ۔ .

ماخذ: دیکھیں کتاب : العدۃ فی شرح العمدۃ لابن قدامہ المقدسی ص ( 481 ) ۔