الحمد للہ.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى كو ديے گئے سے يادہ واپس لے "
يہ قول مہر سے زيادہ ميں خلع كرنے كے صحيح ہونے كى دليل ہے، اور اگر دونوں خاوند اور بيوى كسى چيز پر خلع كرنے ميں تيار ہوں تو يہ جائز ہے، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے.
عثمان اور ابن عمر اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم اور عكرمہ و مجاہد اور قبيصہ بن ذؤيب اور نخعى مالك شافعى اور اصحاب الرائے سے يہى مروى ہے.
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اس ليے اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں البقرۃ ( 229 ).
ربيع بنت معوذ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" ميں نے اپنے خاوند سے اپنے سر كو باندھنے والے سے بھى كم ميں خلع كيا " تو عثمان بن عفان رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے جائز قرار ديا، اور اس طرح كا معاملہ مشہور ہوتا ہے ليكن پھر بھى كسى نے اس كا انكار نہيں كيا تو اس طرح يہ اجماع بن گيا جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر يہ فعل كراہت كے ساتھ جائز ہو گا كيونكہ جميلہ كى حديث ميں مروى ہے كہ:
" انہيں حكم ديا كہ وہ بيوى سے اپنا باغ واپس لے ليے اور اس سے زيادہ نہيں "
اور عطاء سے مروى ہے كہ: ( ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ نے بيان كيا ) نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ناپسند كيا كہ خلع لينے والى عورت سے زيادہ ليا جائے جو اسے خاوند نے ديا ہے، تو اس طرح آيت اور حديث ميں جمع ہو جائيگا، آيت جواز پر دلالت كرتى ہے اور حديث ميں كراہت كے ساتھ زيادہ لينے كى ممانعت ہے.