اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا ابلیس فرشتوں میں سے ہے یا کہ جنوں میں سے

22232

تاریخ اشاعت : 20-02-2005

مشاہدات : 16943

سوال

کیا ابلیس جنوں میں سے ہےیا کہ فرشتوں میں سے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شیخ محمد امین شیقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اللہ تعالی کا فرمان ہے : (وہ جنوں میں سے تھا تو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی ) الکھف / 50

اس آیت میں یہ واضح ہے کہ ابلیس کا اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے کا سبب جنوں میں سے ہونا ہے جو کہ اصول میں مقرر ہے نص کے اعتبار سے بھی اور اشارے اور تنبیہ کے اعتبار سے بھی کیونکہ فاحرف تعلیل ہے جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے سرق فقطعت یدہ اس نے چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گيا یعنی اس کی چوری کی بنا پر اور ایسے ہی یہ قول ( سھا فسجد) وہ بھول گیا تو اس نے سجدہ کیا یعنی بھولنے کی وجہ سے اور اسی سے اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

(چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دو ) المائدہ / 37

یعنی ان کے چوری کرنے کی بنا پر تو اسی طرح یہاں پر اللہ تعالی کا فرمان ہے :

(وہ جنوں میں سے تھا تو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی ) یعنی جنوں میں سے ہونے کی بنا پر کیونکہ اسی وصف سے فرشتوں اور اس کے درمیان فرق کیا ہے کیونکہ فرشتوں نے اللہ تعالی کے حکم کی اتباع کی اور اس نے نافرمانی کی تو آیت کے اسی ظاہر کی بنا پر علماء کی ایک جماعت کا یہ کہنا ہے کہ وہ فرشتوں میں سے نہیں بلکہ اصلا جن تھا اور ان کے ساتھ رہ کر عبادت کرنے کی بنا پر ان کے نام کا اطلاق ہونے لگا تھا کیونکہ وہ ان کے تابع تھا جس طرح کہ کسی قبیلے کے حلیف پر اس قبیلے کے نام کا اطلاق ہوتا ہے ۔

اور اہل علم کے ہاں ابلیس کے متعلق اس بات میں اختلاف مشہور ہے کہ آیا اصلا فرشتہ تھا تو اللہ تعالی نے اسے مسخ کر کے شیطان بنا دیا یا کہ وہ اصلا فرشتہ نہیں تھا بلکہ اس کا ان کے ساتھ شامل ہونے اور ان کے ساتھ مل کر عبادت کرنے کی وجہ سے اس پر فرشتے کا نام بولا جانے لگا تھا ۔

تو جو یہ کہتے ہیں کہ وہ اصلا فرشتوں میں سے نہیں تھا ان کی دلیل دو چیزوں پر مشتمل ہے :

پہلی : فرشتوں کا کفر کے ارتکاب سے معصوم ہونا جیسا کہ ابلیس اس کا مرتکب ہوا جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

( وہ اللہ تعالی کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور انہیں جو حکم دیا جائے اس پر عمل کرتے ہیں ) التحریم / 6

اور ارشاد باری تعالی ہے :

( وہ کسی بات میں بھی اللہ تعالی سے آگے نہیں بڑھتے بلکہ اس کے فرمان پر عمل کرتے ہیں ) الانبیاء / 27

دوسری : اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا اور جن فرشتوں کے علاوہ کوئی قوم ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نص قرآنی محل نزاع میں ہے ۔

اور جنوں نے بالجزم کہا ہے کہ وہ اصلا فرشتوں میں سے نہیں انہوں نے اس آیت کے ظاہر کو لیا ہے ان میں حسن بصری رحمہ اللہ شامل ہیں اور زمخشری نے اپنی تفسیر میں ان کی تائید کی ہے ۔

اور قرطبی رحمہ اللہ نے سورہ بقرہ کی تفسیر میں کہا ہے کہ : اس کا فرشتوں میں سے ہونا یہ قول جمہور کا ہے جن میں ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اور ابن جریج اور ابن مسیب اور قتادہ وغیرہم رحمہم اللہ شامل ہیں اور اسے شیخ ابو الحسن نے بھی اختیار کیا اور طبری نے اسے راجح قرار دیا ہے اور وہ اس قول کا ظاہر ہے :

( سوائے ابلیس کے ) اھـ

اور مفسرین کا سلف کی ایک جماعت سے جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں کا یہ ذکر کرنا کہ ابلیس فرشتوں کے سرداروں میں سے تھا یا وہ جنت کا خازن تھا یا وہ آسمان و دنیا کے معاملات نپٹاتا تھا اور یہ کہ اس کا نام عزاریل تھا تو یہ سب اسرائیلیات ہیں جن کی طرف رجوع نہیں کیا جا سکتا ۔

اور اس مسئلہ میں سب سے زیادہ واضح دلیل اس شخص کی دلیل ہے جو کہ یہ کہتا ہے کہ وہ فرشتہ نہیں اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

( سوائے ابلیس کے وہ جنوں میں سے تھا تو اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی )

اور وحی میں سے اس موضوع میں سب سے واضح چیز ہے اور علم تو اللہ تعالی کے ہی پاس ہے .

ماخذ: اضواء البیان / 3 / 130 – 132