الحمد للہ.
اول:
رمضان کے روزوں کی قضا میں تاخیر کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت: ان روزوں کی قضا میں تاخیر کسی عذر کی بنا پر تو پھر ایسی صورت میں صرف قضا ہی لازم ہے۔
دوسری صورت: کسی عذر کی بنا پر رمضان کے روزوں میں تاخیر ہو، تو ایسی صورت میں روزوں کی قضا بھی ہو گی اور ساتھ میں کفارہ بھی دینا ہو گا یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔
کچھ اہل علم اس بات -اور یہ اس مسئلے میں دوسرا موقف ہے-کے بھی قائل ہیں کہ :
بغیر عذر کے روزوں کی قضا میں تاخیر کی صورت میں صرف قضا لازم ہو گی اور تاخیر کیلیے توبہ کرنا ضروری ہے، کفارہ دینا ضروری نہیں ہے، اس کا بیان پہلے فتوی نمبر: (122319) اور (26865) میں گزر چکا ہے۔
دوم:
روزوں کی قضائی میں تاخیر کی صورت میں کفارہ ادا کرنے کے قائلین یہ کہتے ہیں کہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے، نقدی رقم دینا ان کے ہاں کفارے کی مقدار نہیں ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اتنی زیادہ تاخیر پر آپ اللہ تعالی سے توبہ کریں؛ کیونکہ آپ پر لازم یہ تھا کہ آئندہ رمضان آنے سے پہلے ان روزوں کی قضا دے دیتے، نیز آپ توبہ کے ساتھ ساتھ ہر دن کے بدلے میں علاقائی غذا کا نصف صاع کھجور، چاول یا کوئی بھی اناج جس کا وزن تقریباً ایک یا ڈیڑھ کلو بنتا ہے مساکین میں تقسیم کر دیں، آپ مکمل کفارہ ایک مسکین کو بھی تھما سکتے ہیں" انتہی
" مجموع فتاوى ابن باز " (15/341)
اس لیے آپ اپنی غریب خالہ یا ماموں کو کفارہ دے سکتے ہیں؛ کیونکہ وہ غریب اور محتاج ہیں، بلکہ انہیں کفارہ دینا پرائے لوگوں کو دینے سے آپ کیلیے زیادہ بہتر ہے، اور ان تمام دنوں کا کفارہ 27 کلو چاول بنتے ہیں۔
واللہ اعلم.