الحمد للہ.
اول:
جو شخص رات کے وقت جنبی ہو جائے، اور صبح روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ صحیح ہے، جمہور کے ہاں ایسے شخص کو قضا دینے کی ضرورت نہیں ہے، اس کی وجہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے، آپ دونوں کہتی ہیں: "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گواہی دیتی ہیں کہ آپ صبح اٹھتے تو جنبی ہوتے تھے، آپ کی یہ جنابت احتلام کی وجہ سے نہیں ہوتی تھی، پھر آپ غسل کرتے اور پھر روزہ رکھتے"
شوکانی کہتے ہیں کہ:
"اسی کے جمہور علمائے کرام قائل ہیں، بلکہ نووی نے ٹھوس الفاظ میں کہا ہے کہ اسی موقف پر اجماع ہو چکا ہے، جبکہ ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ یہی اجماعی یا اجماعی موقف کے قریب ہے" انتہی
" الموسوعة الفقهية " (28/ 63)
اسی طرح مزید کیلئے سوال نمبر: (43307) اور (181351) کا جواب دیکھیں۔
بخاری: (1926) اور مسلم: (1109) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بیان کیا کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص فجر کا وقت جنبی حالت میں پا لے تو وہ روزہ نہ رکھے) پھر جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کا مذکورہ بالا موقف پہنچا، تو خبر دینے والے سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا واقعی ان دونوں کا یہ بیان ہے؟" تو اس شخص نے کہا: "ہاں" تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: "انہیں مجھ سے زیادہ علم ہے" اس کے بعد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنا موقف بیان کرتے ہوئے فضل بن عباس کے حوالے سے بات کرتے، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ: "میں نے یہ بات فضل بن عباس سے سنی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی"، چنانچہ ابو بکر بن عبد الرحمن [ابو ہریرہ سے انکا موقف نقل کرنے والے روای] کہتے ہیں کہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔
ابن ماجہ: (1702) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے: "رب کعبہ کی قسم! میں نہیں کہتا کہ: "جو صبح کے وقت جنبی ہو وہ روزہ افطار کر لے" بلکہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی" اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابن ماجہ" میں صحیح کہا ہے۔
جبکہ ابن ابی شیبہ (2/330)میں ابن مسیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے فتوے "جو شخص جنبی حالت میں صبح کرے تو اسکا روزہ نہیں ہے" سے رجوع کر لیا تھا۔
اہل علم کا عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث پر عمل ہے جبکہ اس مسئلے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل نہ کرنے کا اتفاق ہے، اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے امہات المؤمنین کے موقف کی طرف رجوع کر لیا تھا۔
اہل علم کے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے متعلق متعدد جوابات ہیں۔
چنانچہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے زیادہ صحیح سند کیساتھ ثابت ہے، اور ویسے بھی دو راویوں کی حدیث ایک راوی کی حدیث پر مقدم ہوتی ہے۔
دیکھیں: "نيل الأوطار" (4/ 253)
امام بکاری رحمہ اللہ نے ان دونوں احادیث کو بیان کرنے کے بعد کہا:
"پہلی [یعنی عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما والی حدیث] زیادہ پائیدار ہے"
جبکہ کچھ علمائے کرام ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث منسوخ ہونے کے قائل ہیں۔
ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بارے میں سب سے اچھی بات میں نے یہ سنی ہے کہ اسے منسوخ تصور کیا جائے۔۔۔۔ چنانچہ ابو ہریرہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنی ہوئی بات کے مطابق فتوی دیا کرتے تھےجب آپ کو منسوخ ہونے کا علم نہیں تھا، چنانچہ جب عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سنی تو پھر اسی موقف کے قائل ہوگئے" انتہی
"السنن الكبرى" از: بیہقی(4/ 363)
جبکہ کچھ علمائے کرام ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو نفی کمال پر محمول کرتے ہیں۔
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کچھ علمائے کرام نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث "اس کا روزہ نہیں" کو نفی کمال پر محمول کیا ہے، اس کی وجہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جس میں [جنبی حالت میں روزے کا] جواز موجود ہے، اور یہ موقف قریب ترین اور مضبوط ترین لگتا ہے" انتہی
" تفسیر ابن كثیر" (1/ 517)
"نفی کمال" کا مطلب یہ ہے کہ افضل اور کامل عمل یہ ہے روزے رکھنے کا متمنی شخص فجر سے پہلے غسل کر لے، تا کہ ابتدائے دن سے پاک صاف ہو، البتہ اگر فجر کے بعد غسل کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔
چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (28/ 63) میں ہے کہ :
"ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو منسوخ کہا گیا ہے یا افضل عمل کی طرف اس میں رہنمائی ہے، یعنی فجر کی اذان سے قبل غسل دینا مستحب ہے، تا کہ ابتدائے روزے سے ہی طہارت پر ہو" انتہی
ہمارے نزدیک یہاں سب سے قوی موقف یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث منسوخ ہے، اور اس کی دلیل خود ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا عائشہ اور ام سلمہ کے موقف سے رجوع ہے، چنانچہ آپ نے اپنے موقف کو بیان کرنا ترک کر دیا تھا۔
واللہ اعلم.