جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

كيا رات كے وقت دفن كرنا جائز ہے ؟

22285

تاریخ اشاعت : 20-12-2005

مشاہدات : 4953

سوال

جب كوئى شخص نصف رات سے قبل يا اس كے بعد فوت ہو جائے تو كيا اسے رات كو دفن كرنا جائز ہے؟ يا كہ اسے طلوع فجر كے بعد ہى دفن كيا جائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ميت رات كو دفن كرنى جائز ہے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك شخص كى عيادت كيا كرتے تھے تو وہ شخص رات كے وقت فوت ہوگيا تو اسے رات كو ہى دفن كر ديا گيا اور جب صبح ہوئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى خبر دى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھے بتانے سے تمہيں كس چيز نے منع كيا؟

تو صحابہ كرام نے عرض كيا:

رات كا وقت تھا اور رات بھى اندھيرى تھى اس ليے ہم نے آپ كو مشقت ميں ڈالنا مناسب نہ سمجھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كى قبر پر آئے اور نماز جنازہ ادا فرمائى"

اسے بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام پر اس كا انكار نہيں كيا كہ اسے رات كو دفن كيوں كيا گيا، بلكہ اعتراض يہ كيا كہ انہوں نے اس كى خبر صبح كيوں دى اور رات كو كيوں نہيں بتايا، اور جب صحابہ كرام نے عذر پيش كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عذر قبول كر ليا.

اور ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ كہتے ہيں:

" لوگوں نے قبرستان ميں آگ ديكھى تو وہاں چلے آئے تو ديكھا كہ قبرستان ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہيں اور وہ فرما رہے ہيں:

" اپنا ساتھى مجھے پكڑاؤ، ديكھا تو وہ شخص تھا جو بلند آواز سے ذكر كيا كرتا تھا"

اور يہ رات كا وقت تھا جيسا كہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ( لوگوں نے قبرستان ميں آگ ديكھى.... ) الخ بھى اس پر دلالت كرتا ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بھى رات كے وقت ہى دفن كيا گيا تھا، امام احمد رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے وہ كہتى ہيں:

" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دفن ہونے كا پتہ اس وقت چلا جب ہم نے رات كے آخرى حصہ ميں پھاوڑوں اور بيلچوں كى آواز سنى، اور يہ بدھ كى رات تھى، اور مساحى ان آلات كو كہا جاتا ہے جس سے مٹى ڈالى جاتى ہے.

اور ابو بكر اور عائشہ اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم كو بھى رات كے وقت ہى دفن كيا گيا.

اور جو روايت رات كو دفن كرنے كى كراہيت پر دلالت كرتى ہے وہ اس پر محمول ہے كہ اگر رات كو جلد دفن كرنا نماز جنازہ ميں مخل ہوتا ہو تو پھر نہ دفن كيا جائے، جيسا كہ يہ صحيح حديث ميں وارد ہے.

يا پھر اس ليے كہ اس كا كفن غلط نہ ہو جائے، اور اس ليے بھى كہ يہ اس كے جنازہ ميں شريك ہونے والوں كے ليے زيادہ آسان ہے، اور اسے بہتر طريقہ سے دفن كرنا زيادہ ممكن ہے، اور اس كى لحد بنانے كى كيفيت ميں سنت كى پيروى و اتباع ہے، اور يہ اس وقت ہے جب اسے جلد دفن كرنے كى ضرروت نہ ہو، وگرنہ اسے جلد دفن كرنا واجب ہے، چاہے رات كے وقت ہى كيوں نہ ہو.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ماخذ: ديكھيں: اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 397 )