منگل 22 ذو القعدہ 1446 - 20 مئی 2025
اردو

شمالی حدود (عرعر) کے رہائشی شخص کا سوال: حج اور عمرہ کے لیے میقات کیا ہو گا؟

223579

تاریخ اشاعت : 12-05-2025

مشاہدات : 105

سوال

میں سعودی عرب کے شمالی حدود کے علاقے، خصوصاً شہر عرعر کا رہائشی ہوں۔ ان شاء اللہ، اس سال میں ایک خیراتی قافلے کے ساتھ حج ادا کرنے جا رہا ہوں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میرے لیے حج یا عمرہ کا احرام کس مقام سے باندھنا لازم ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جو لوگ عراق کی سمت میں سعودی عرب کے شمال کے رہائشی ہیں، جیسے کہ شمالی حدود (عرعر) کے باشندے وغیرہ تو ان کا اصل میقات وہی ہے جو اہلِ عراق کا میقات ہے، اور اہلِ عراق کا میقات ’’ذات عرق‘‘ ہے۔ جیسا کہ ابو داود (حدیث نمبر: 1739) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ عراق کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر فرمایا۔ اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’صحیح سنن ابی داود‘‘ میں اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

لیکن چونکہ آج کے دور میں ذاتِ عرق کا راستہ نہ ہموار ہے اور نہ عام طور پر استعمال ہوتا ہے، اس لیے ان علاقوں کے رہنے والے لوگ عموماً ذو الحلیفہ سے احرام باندھتے ہیں، جو کہ اہلِ مدینہ کا میقات ہے۔ بعض لوگ جو ریاض کے راستے سے آتے ہیں، وہ نجد والوں کے میقات یعنی ’’قرن المنازل‘‘ (السيل الكبير) سے احرام باندھتے ہیں۔

لہٰذا: اگر آپ مدینہ کی طرف سے مکہ مکرمہ جا رہے ہوں تو آپ کا میقات ذو الحلیفہ ہو گا، یعنی وہی مقام جہاں سے اہلِ مدینہ احرام باندھتے ہیں۔

اور اگر آپ ریاض کی طرف سے آ رہے ہوں تو آپ کا میقات قرن المنازل (السيل) ہو گا۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو بخاری (حدیث نمبر: 1526) اور مسلم (حدیث نمبر: 1181) میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہلِ مدینہ کے لیے ذو الحلیفہ ، اہلِ شام کے لیے جحفہ ، اہلِ نجد کے لیے قرن المنازل اور اہلِ یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر فرمایا؛ یہ میقات انہی علاقوں کے لوگوں کے لیے ہیں اور ان تمام لوگوں کے لیے بھی جو ان جگہوں سے گزریں اور وہ ان علاقوں کے رہائشی نہ ہوں، بشرطیکہ وہ حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتے ہوں۔ پس جو شخص ان میقاتوں کی اندرونی جانب رہتا ہو، وہ اپنے مقام ہی سے احرام باندھے، یہاں تک کہ اہلِ مکہ بھی مکہ سے ہی احرام باندھیں گے۔‘‘

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب