الحمد للہ.
سودى لين دين كرنے والے بنكوں ميں اپنى رقم ركھنى جائز نہيں، اور مسلمان شخص كے ليے بغير كسى مجبورى كے ايسا كرنا جائز نہيں، اور يہ اس وقت ہو سكتا ہے جب اس ميں تين شروط پائى جائيں:
1 - اس كى ضرورت پيش آ جائے:
وہ اس طرح كہ ان بنكوں كے علاوہ رقم ركھنے كے ليے كوئى جگہ نہ ہو جہاں اموال كى حفاظت ہو سكے، لہذا جب اس سودى بنك كے علاوہ كوئى ايسى جگہ موجود ہو جہاں مال كى حفاظت كرنا ممكن ہو تو سود كا لين دين كرنے والے بنك ميں مال ركھنا جائز نہيں.
2 - بنك كا معاملہ سو فيصدى سود سے پاك ہو:
اور اگر جب بنك كا معاملہ سو فيصدى سودى ہو تو اس بنك ميں مال ركھنا مطلقا جائز نہيں، كيونكہ اس حالت ميں بنك كے اندر رقم ركھنى سود ميں بنك سے ساتھ معاونت ہے، اور سود پر اس كى معاونت كرنى جائز نہيں.
3 - رقم ركھنے والا شخص نفع نہ لے، اور اگر اس نے نفع ليا تو يہ سود ہے، اور كتاب و سنت اور مسلمانوں كے اجماع كے مطابق سود حرام ہے.
اور سائل كا يہ كہنا كہ: اگر وہ فائد نہيں لے گا تو بنك لے لے گا.
يہ فائدہ نہيں بلكہ يہ تو حرام كردہ سود ہے اور اصلا يہ بنك كا ہے، اور مال ركھنے والے كے ليے اس ميں سے كچھ بھى لينے كا حق نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے سود ترك كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
اے ايمان والو! اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور جو سود باقى بچا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو البقرۃ ( 278 )
اللہ تعالى نے سود لينے والے كو وعيد سناتے ہوئے فرمايا:
اگر تم ايسا نہيں كرو گے ( سود نہيں چھوڑو گے ) تو پھر اللہ اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كے ساتھ لڑنے كے ليے تيار ہو جاؤ البقرۃ ( 279 ).
اور اس پر متنبہ رہنا ضرورى ہے كہ يہ اموال بنكوں ميں ركھنا شرعى معنى ميں امانت ركھنا نہيں، كيونكہ شرعى امانت تو يہ ہے كہ آپ اپنا مال ديں اور يہ مال اس كے پاس اسى طرح رہے اور وہ اس ميں كوئى بھى تصرف نہ كرے، ليكن بنك جو اس ميں تصرف كرتا ہے وہ تو شرعا قرض ہے نہ كہ امانت، اور فقھاء كرام نے اس ميں يہ بيان كيا ہے كہ:
جب امانت ركھنے والے شخص نے مودع ( يعنى جس كے پاس امانت ركھى گئى ہے ) كو مال ميں تصرف كرنے كى اجازت دى ہو تو اس سے يہ قرض بن جائے گا. ( اور اسى ليے اس پر زيادہ سود ہوگا )
واللہ تعالى اعلم، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.
ديكھيں: فتاوى منار الاسلام للشيخ ابن عثيمين ( 2 / 433 - 440 ).
واللہ اعلم .