الحمد للہ.
اول:
ایسی کمپنیاں جن کی بنیادی تجارتی سرگرمیاں شرعا جائز ہیں جیسے کہ آپ نے آئل اور گیس کی کمپنیاں ذکر کی ہیں لیکن وہ ساتھ میں کچھ حرام لین دین بھی کرتی ہیں مثلاً: سودی لین دین کرتی ہیں ایسی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے میں مسلمان کے لیے کوئی حرج نہیں ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ سودی لین دین میں ملوث نہ ہو، اور نہ ہی کسی حرام کام پر مدد کرے، یعنی اس کا کام کمپنی کے ایسے شعبوں میں ہو جو جائز ہیں اور ان شعبوں کا حرام کام کی ادارت سے کوئی تعلق نہ ہو۔
دوم:
ایسے کریڈٹ کارڈ جو صارفین سے ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں منافع وصول کرتے ہیں ، انہیں استعمال کرنا حرام ہے؛ کیونکہ یہ سود کی وہی صورت ہے جسے اللہ تعالی نے سخت ترین الفاظ کے ساتھ قرآن مجید میں حرام قرار دیا ہے۔
تاہم یہ بھی شرعی اصول اور ضابطہ ہے کہ: جب مسلمان کو کسی حرام کام پر مجبور کر دیا جائے تو ایسی صورت میں مسلمان کے لیے بادل نخواستہ وہ کام مجبور ہونے کی وجہ سے کرنے میں حرج نہیں ہے، مسلمان ایسا کام اپنی مرضی سے نہ کرے، چنانچہ اللہ تعالی نے سب سے بڑے حرام کام یعنی کفر کے بارے میں فرمایا:
(مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ)
ترجمہ: جو ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے ، ما سوائے اس شخص کے جسے مجبور کر دیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا۔[ النحل:106]
اس لیے اگر کمپنی کی جانب سے ملازمین پر اس حرام کریڈٹ کارڈ کو جاری کروانا لازمی قرار دیا جاتا ہے تو اس کے جاری کروانے میں حرج نہیں ہے؛ لیکن اسے استعمال مت کرے، اور اگر استعمال کرے بھی تو ایسی صورت میں جب اسے سود لازم ہونے سے پہلے ادائیگی کا یقین ہو، ہم پہلے شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کا فتوی ذکر کر چکے ہیں اس میں انتہائی ضرورت کی صورت میں استعمال کرنے کا جواز بتلایا گیا ، صرف اس شخص کے لیے جو سود لازم ہونے سے پہلے ادائیگی کرنے کا غالب گمان رکھتا ہو۔
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (3402) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اور یہی بات ملازمین پر ضروری قرار دی جانے والی میڈیکل انشورنس کے بارے میں کہی جائے گی کہ چونکہ آپ کو میڈیکل انشورنس کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے اس لیے اس میں حرج نہیں ہے، لیکن اس انشورنس سے اتنا ہی مستفید ہو جتنی اقساط کی صورت میں رقم ادا کی ہے۔
تاہم اپنے ملازمین کی انشورنس سے متعلقہ ان کمپنیوں کے تعامل سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ انشورنس کمپنی اور فیکٹری کے مابین معاہدہ ہوتا ہے، ملازمین کا اس معاہدے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، ملازم صرف اس معاہدے سے مستفید ہوتا ہے۔
اگر آپ کی کمپنی کا بھی معاملہ ایسے ہی ہے تو پھر ملازمین کا مکمل طور پر انشورنس سے مستفید ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ معاہدہ اس کی فیکٹری نے کیا ہے، اور فیکٹری نے پھر اسے اپنے ملازمین کو یا تو تحفہ دیا ہے یا پھر کمپنی نے اس کی تنخواہ میں ماہانہ کٹوتی کرنی ہے، ملازم خود اس انشورنس کے معاہدے کا حصہ نہیں ہے اور نہ ہی اس معاہدے کا ذمہ دار ہے۔
سوم:
آپ اگر کارگو کمپنی بنانا چاہتے ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ انشورنس کو آپ کے لئے لازم قرار دینا بھی مجبوری کی ہی ایک صورت ہے جس کی بنا پر مسلمان کے لیے اس شرط کو قبول کرنے کی گنجائش نکلتی ہے، جیسے کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں؛ تاہم اس صورت میں آپ انشورنس کمپنی سے اتنا ہی مستفید ہو سکتے ہیں جتنی آپ نے انشورنس کی اقساط ادا کی ہیں۔
اس بابت تفصیلی گفتگو سوال نمبر: (117290) کے جواب میں گزر چکی ہے۔
چہارم:
تجارت کے اسلامی طریقہ کے کچھ ماہرین ایسی کمپنیوں کا اشاریہ جاری کرتے ہیں جن کے لین دین شریعت کے مطابق ہیں، انہی ماہرین میں شیخ ڈاکٹر محمد عصیمی بھی شامل ہیں، آپ ان کی جانب سے مرتب کردہ اشاریہ اس لنک میں دیکھ سکتے ہیں، واضح رہے کہ یہ فہرست عربی زبان میں ہے۔
واللہ اعلم.