منگل 5 ربیع الثانی 1446 - 8 اکتوبر 2024
اردو

ملحد سے شادى كرنے كا حكم

22468

تاریخ اشاعت : 04-11-2009

مشاہدات : 9919

سوال

ميرے خاوند نے مجھے كہا كہ شادى سے قبل وہ ملحد تھا اور ميرا ايمان متزلزل تھا ميں نے زيادہ نہ سوچا اور شادى كے ايك برس بعد ميں نے ديكھا اور توقع كى كہ ميں اسے تبديل كر سكتى ہوں، خاوند كے والدين مسلمان ہيں، ميرا ايمان كمزور تھا، سسرال والوں كے ساتھ ميرى مشكلات شروع ہو گئيں تو ميرے گھر والوں نے مجھے نصيحت كى كہ اللہ پر بھروسہ كر كے اس كے ليے دعا كروں، الحمد للہ ميں نے نماز بھى شروع كر دى اور دل ميں ايمان اور اللہ كے وجود كا شعور پيدا ہو گيا، ميرے چچا پچيس برس كى عمر ميں فوت ہو گئے تو اس واقعہ نے مجھے يہ سوچنے پر مجبور كر ديا كہ يہ زندگى تو ختم ہونے والى ہے الحمد للہ ميرا اللہ پرايمان مضبوط ہو گيا، ليكن ميرے خاوند كا ايمان ميرے ايمان كى طرح نہيں، وہ اللہ اور رسول پر تو ايمان ركھتا ہے ليكن اس كے خيال ميں اسلامى تعليمات كو اپنانا ضرورى نہيں، يہ تعليمات تو صرف پہلے وقت كے ليے تھيں.
ميں اسے كس طرح سمجھاؤں، كيا اب ہمارى شادى باطل ہے، وہ كہتا ہے كہ دل صاف ہونا چاہيے شراب نوشى يا قمار بازى اور جوا وغيرہ اہم نہيں، بعض اوقات وہ شراب نوشى بھى كرتا ہے برائے مہربانى جواب جلد ديں كہ ہمارى شادى باطل ہے يا نہيں كيونكہ ميں معصيت و نافرمانى ميں نہيں رہنا چاہتى، آپ كا شكريہ ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين والے سے شادى كرنے كى وصيت فرمائى ہے، كيونكہ اصل ميں عورت كمزور ہوتى ہے اسے تبديل كرنا اور اسے مطئمن كرنا اور اس كى سوچ كو بدلنا ممكن ہوتا ہے بلكہ اس كے دين كو بھى بدلنا مشكل نہيں اس كے ليے كم از كم چيز خرچ كر كے كاميابى حاصل ہو سكتى ہے، اس ليے آپ كو چاہيے تھا كہ آپ ايسے شخص سے شادى كرنے سوچتى بھى نہ جو قليل الدين تھا، چہ جائيكہ بےدين اور ملحد قسم كے شخص سے اس دليل كے ساتھ شادى كرنا كہ آپ اس كى ہدايت كا سبب بن سكتى ہيں.

ملحد اور بےدين شخص سے شادى اصلا بالكل باطل اور فاسد ہے، اللہ اور آخرت كے دن پر ايمان ركھنے والى كسى بھى عورت كے ليے اس طرح كى فاسد اور باطل شادى اس دليل سے كرنى جائز نہيں كہ وہ شادى كے بعد اس شخص كو تبديل كر لے گى، آپ كے ليے واجب تو يہ تھا كہ آپ بھى اس صحابيہ كى طرح كرتيں جن كا نام ام سليم تھا اور انہوں نے ابو طلحہ سے شادى كرنے كے ليے ـ كيونكہ وہ كافر تھا ـ شرط ركھى كہ وہ اسلام قبول كر لے تو اس سے شادى ہو سكتى ہے، اور اسلام ميں سب سے عظيم مہر ام سليم كا تھا جيسا كہ انس رضى اللہ تعالى عنہ نے بيان كيا ہے اور اسے نسائى نے ( 3341 ) ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

كسى مسلمان عورت كا كافر شخص سے شادى كرنا فاسد اور باطل ہے اس كے دلائل واضح اور ظاہر ہيں، اور يہ ان مسائل ميں سے جن پر علماء امت كا اجماع ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تمہارے پاس مومن عورتيں ہجرت كر كے آئيں تو ان كا امتحان لو، دراصل ان كے ايمان كو بخوبى جاننے والا تو اللہ ہى ہے، ليكن اگر وہ تمہيں ايمان والياں معلوم ہوں تو اب تم انہيں كافروں كى طرف واپس نہ كرو، يہ ان كے ليے حلال نہيں، اور نہ وہ ان كے ليے حلال ہيں، اور جو خرچ ان كافروں كا ہوا ہے وہ انہيں ادا كر دو، ان عورتوں كو ان كے مہر دے كر ان سے نكاح كر لينے ميں تم پر كوئى گناہ نہيں الممتحنۃ ( 10 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور شرك كرنے والى عورتوں سے اس وقت تك نكاح مت كرو جب تك وہ ايمان نہ لے آئيں، ايمان والى لونڈى بھى شرك كرنے والى آزاد عورت سے بہت بہتر ہے، گو تمہيں مشركہ ہى اچھى لگتى ہو، اور نہ شرك كرنے والے مردوں كے نكاح ميں اپنى عورتوں كو دو جب تك كہ وہ ايمان نہ لائيں، ايمان والا غلام آزاد مشرك مرد سے بہتر ہے، گو مشرك تمہيں اچھا لگے، يہ لوگ جہنم كى طرف بلاتے ہيں، اور اللہ جنت كى طرف اور اپنى بخشش كى طرف اپنے حكم سے بلاتا ہے، وہ اپنى ايتيں لوگوں كے ليے بيان كر رہا ہے تا كہ وہ نصيحت حاصل كريں البقرۃ ( 221 ).

اور آپ كا خاوند جو آپ كو كہہ رہا ہے اور جسے وہ اسلام كى طرف منسوب كر رہا ہے وہ سب يقينى طور پر باطل ہے، كيونكہ اسلام اس دور اور وقت كے ليے خاص نہيں تھا جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے تھے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى رسالت تو سب لوگوں اور قيامت تك كے ليے ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ہم نے آپ كو سب لوگوں كے ليے خوشخبرى دينے والا اور ڈرانے والا بنا كر بھيجا ہے، ليكن اكثر لوگ جانتے نہيں "سبا ( 28 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:

آپ كہہ ديجئے كہ اے لوگو! ميں تمہارى سب كى طرف اللہ كا رسول ہوں، جس كى آسمان و زمين ميں پائى جانے والى سب اشياء پر ملكيت ہے، اس كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں وہ ہى زندہ كرتا اور مارتا ہے، چنانچہ تم اللہ اور اس كے رسول امى نبى پر ايمان لاؤ جو اللہ اور اس كے كلمات پرايمان لانے والا ہے اور اسى كى پيروى و اتباع كرو تا كہ تم راہ ہدايت پر آ جاؤ " الاعراف ( 158 ).

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھے پانچ اشياء دى گئى ہيں جو مجھ سے پہلے كسى نبى كو نہيں دى گئيں:

ميرى ايك ماہ كى مسافت سے دورى پر رعب كے ساتھ مدد كى گئى ہے، اور ميرے ليے سارى زمين مسجد اور پاك بنائى گئى ہے، ميرى امت ميں سے جس شخص نے بھى نماز كا وقت پا ليا تو وہ نماز ادا كرے، اور ميرے ليے غنيمت حلال كى گئى ہے، اور نبى كو خاص كر اس كى قوم كى طرف مبعوث كيا جاتا تھا ليكن مجھے سب لوگوں كے ليے مبعوث كيا گيا ہے، اور مجھے شفاعت عطا كى گئى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 438 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 432 ).

اور آپ كے خاوند كا يہ اعتقاد ركھنا كہ دل صاف ہونا چاہيے يہ كوئى اہم نہيں چاہے شراب نوشى كرے يا جوا كھيلے

اس كى يہ بات غلط اور باطل اور فاسد اعتقاد ہے، كيونكہ اگر دل صاف ہو تو ضرورى ہے كہ اس صاف ہونے كا باقى اعضاء پر بھى اثر ظاہر ہو، كيونكہ ظاہر كى اصلاح باطن كى اصلاح كى علامت و نشانى ہے، اور ظاہر كا خراب اور فاسد ہونا باطن كى خرابى كى نشانى ہے، تو پھر اس كا دل كس طرح صاف ہو سكتا ہے جب وہ شراب نوشى بھى كرى يا جوا كھيلے اور قمار بازى كرے يا فحاشى اور بےحيائى كے كام كرے؟ يہ تو محال اور ناممكن ہے.

نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" حلال بھى واضح ہے اور حرام بھى واضح، اور ان كے مابين كچھ مشابہات ہيں جنہيں اكثر لوگ نہيں جانتے، اس ليے جو كوئى بھى مشابہات سے بچ گيا تو اس نے اپنا دين بھى محفوظ كر ليا اور اپنى عزت بھى، اور جو كوئى شبہات ميں پڑ گيا تو وہ اس راعى اور چرواہے كى طرح ہے جو مخصوص چراگاہ كے ارد گرد چرا رہا ہے خدشہ ہے كہ كہيں اس ميں بھى نہ واقع ہو جائے، خبردار ہر بادشاہ كے ليے مخصوص علاقہ چراگاہ ہوتا ہے اور اللہ كى يہ حمى اور مخصوص علاقہ اس كى زمين ميں حرام كردہ اشياء ہيں، خبردار جسم ميں ايك ٹكڑا ہے جب وہ صحيح ہو جائے تو سارا جسم صحيح ہو جاتا ہے، اور جب وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم ہى خراب ہو جاتا ہے، اور وہ دل ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 52 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1599 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

آپ كى يہ شادى فاسد و باطل ہے، اور آپ كے ليے حلال نہيں كہ آپ اس شخص كو اپنے قريب آنے ديں حتى كہ وہ دين اسلام كى طرف واپس نہ پلٹ آئے اور كلمہ شہادت پڑھ كر دين اسلام قبول كر كے اسلامى تعليمات پر عمل پيرا نہ ہو جائے اور اسلامى احكام كو ماننےلگے.

 اگر وہ ايسا نہيں كرتا تو شرعى عدالت كى جانب سے شرعى طور پر نكاح فسخ كرنا واجب و ضرورى ہے، اور اگر آپ كے ليے ايسا ممكن نہ ہو يا پھر شرعى عدالت نہ ہو تو آپ اس سے طلاق طلب كريں، اگر وہ طلاق نہ دے تو آپ اس كو مہر سے كم يا زيادہ ادا كر كے خلع كر ليں تا كہ عليحدگى ہو سكے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب