الحمد للہ.
مسلمانوں میں جن ناموں کے رکھنے کا رواج چلا آ رہا ہے وہ عبدالعزیز اور عبدالرحمان ہیں۔ مسلمانوں میں عزیزالرحمان نام معروف نہیں اس لئے یہ نام نہیں رکھنا چاہئے ؛کیونکہ اس نام کے معنی میں تزکیہ نفس ہے (اس کا معنی ہے :اللہ تعالی نے اسے بلند کر دیا ہے)،اور اس میں وہم اور شبہ بھی ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :نام اور کنیت رکھنا سلف کی عادت تھی؛ چنانچہ وہ لوگوں کی اولاد کے نام پر کنیت رکھتے تھے ،اسی طرح جس کا بچہ نہ ہوتا اس کی بھی اس کے اپنے نام یا اس کے والد کے نام کی طرف نسبت سے کنیت رکھتے تھے یا کسی ایسی چیز سے اس کی کنیت رکھتے تھے جس چیز کا اس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق ہوتا ۔جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ کی کنیت ان کے بھانجے کے نام پر "ام عبداللہ" رکھی ،اور داؤد علیہ السلام کو ابو سلیمان کہتے ہیں؛ کیونکہ داؤد علیہ السلام کے بیٹے کا نام سلیمان تھا ،اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کی کنیت ابو اسحاق ہے ،اور اسی طرح عبداللہ بن عباس کو لوگ ابو العباس کہتے تھے ،اور جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ السلام نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ان کے ہاں موجود بلی کی وجہ سے "ابو ہریرہ "رکھی ۔
اس کے بعد لوگوں نے دین کی طرف اضافت شروع کر دی اور اس کا دائرہ کار مزید وسیع کر دیا۔
جن ناموں اور کنیتوں سے سلف (ایک دوسرے کو)پکارا کرتے تھے حتی الوسع وہی نام اور کنیتیں ہی اختیار کرنی چاہییں ،جس کے لئے یہ ممکن ہو تو مخاطب ہوتے وقت ان ناموں اور کنیتوں کو ترک کر کے دوسرے نام اختیار نہیں کرنے چاہییں ،اور ویسے بھی ایسے ناموں سے منع کیا گیا ہے جن میں خود ستائی اور تزکیہ کا اظہار ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نئے نئے نام جو کہ عجمیوں کی ایجاد ہیں اور ان میں اضافہ جات کرتے ہوئے کہتے ہیں :عزالملۃ والدین ،اور عزالملۃ والحق والدین ۔اکثر ایسے ناموں اور القابات میں واضح جھوٹ ہوتا ہے ۔
کیونکہ عام طور پر صاحب لقب اس لقب کے الٹ معنی کا زیادہ مستحق نظر آ رہا ہوتا ہے ۔جو لوگ اس طرح کے افعال سے فخر و تکبر کے خواہاں ہوتے ہیں ،اللہ ان کو انکے ارادے کے برعکس جزا دے، ان کو ذلیل کر کے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کرے ۔
مجموع الفتاوی (26/311۔312)سے بالاختصار نقل کیا گیا ہے
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں :اسم ،مصدر یا صفت مشبہ سے ماخوذ ایسا نام رکھنا جو لفظ دین یا اسلام کی طرف مضاف ہو، مکروہ ہے ؛جیسے نور الدین ،ضیاء الدین ،سیف الاسلام ،نور الاسلام وغیرہ ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ دین اور اسلام کا بڑا عظیم مقام ہے ،چنانچہ ان کی طرف نسبت کر کے نام رکھنا کھلا دعوی ہے جس میں جھوٹ کی بو آتی ہے ۔اسی لئے بعض علماء نے اس پر تحریم اور اکثر نے کراہت کا فتوی دیا ہے؛ کیونکہ اس میں ایسے غلط معانی کا شائبہ ہے جن کا اطلاق جائز نہیں ہے ۔
اسی طرح لفظ اللہ کی طرف نسبت کر کے نام رکھنا بھی مکروہ ہے جیسے حسب اللہ ،رحمت اللہ ،جبرت اللہ ،سوائے عبداللہ کے کیونکہ یہ نام اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے ۔
“معجم المناھی اللفظیۃ”(ص544 ۔546)(بالاختصار)
فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
" رفیق الرحمن ،غرم اللہ اور غلام اللہ جیسے ناموں سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے؛
کیونکہ ان ناموں کا معنی مشکوک بن جاتا ہے ۔"
"فتاوی اللجنۃ الدائمۃ"(10/508)
چنانچہ اگر ممکن ہے تو اس نام کو تبدیل کر دینا چاہیے ۔
مزید استفادہ کے لئے سوال نمبر 110494 اور 145607 کے جوابات ملاحظہ فرمائیں ۔
واللہ اعلم.