جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

دعائیں جو اللہ کے حکم سے انسان کو تحفظ فراہم کریں۔

سوال

کیا ایسی دعائیں ہیں جو مجھے اسکول کے بُرے بچوں سے محفوظ رکھیں، یا معاشرے میں موجود برے لوگوں سے مطلق طور پر تحفظ فراہم کریں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جی ہاں ایسی بہت سی دعائیں موجود ہیں جن کو پڑھنے سے انسان کو تحفظ ملتا ہے، انسان برائی اور برے لوگوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، ان میں سے چند دعائیں درج ذیل ہیں:

1-۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حسن اور حسین رضی اللہ عنہما دونوں کو اللہ تعالی کی پناہ میں دینے کے لیے یہ دعا پڑھتے اور کہتے : یقیناً تمہارے جد اعلی سیدنا ابراہیم علیہ السلام ان کلمات کے ذریعے اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام کو اللہ کی پناہ میں دیا کرتے تھے،   أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطِانٍ وَّهَامَّةٍ وَمِنْ كُلَّ عَيْنٍ لَامَّةٍ  ترجمہ: میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر شیطان سے، ہر موذی جانور اور کیڑے مکوڑوں سے، اور نیز حسد کرنے والی نظروں سے۔ " اس روایت کو بخاری: (3191) نے روایت کیا ہے۔

حدیث کے عربی الفاظ: { هَامَّةٍ } کا مطلب ہے: موذی حشرات وغیرہ اور جانور، اسی طرح   عَيْنٍ لَامَّةٍ   کا مطلب ہے: حسد کرنے والی آنکھ۔

2-۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر میں سحری کے وقت پڑاؤ کرتے تو کہتے:   سَمِعَ سَامِعٌ بِحَمْدِ اللهِ وَحُسْنِ بَلَائِهِ عَلَيْنَا، رَبَّنَا صَاحِبْنَا وَأَفْضِلْ عَلَيْنَا، عَائِذًا بِاللهِ مِنَ النَّارِ  ترجمہ: ہماری طرف سے اللہ تعالی کی حمد سننے والے نے سن لی اور اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے خوبصورت امتحان کو بھی ، اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنا ساتھ نصیب فرما اور ہم پر اپنا فضل فرما کہ ہم جہنم سے تیری پناہ پانے والے ہوں۔ اس حدیث کو امام مسلم: (2718) نے روایت کیا ہے۔

حدیث کے عربی الفاظ:  أَسْحَرَ  کا مطلب ہے: سحری کے وقت پڑاؤ کی جگہ پر پہنچنا، یا پھر رات کو چلتے چلتے سحری کا وقت ہو جانا، یعنی رات کے آخری حصے میں سفر کرنا۔

حدیث کے عربی الفاظ:   سَمِعَ سَامِعٌ  کا مطلب بیان کرتے ہوئے امام خطابیؒ کہتے ہیں: اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اللہ تعالی کی نعمتوں پر جس انداز سے تعریفیں بیان کی ہیں اور جس خوبصورت انداز میں ہم اللہ تعالی کے امتحان میں کامیاب ہوئے ہیں اس کی گواہی دیکھنے اور سننے والوں نے دے دیں۔

اسی طرح امام نوویؒ کہتے ہیں:
" دعا کے الفاظ:  رَبَّنَا صَاحِبْنَا وَأَفْضِلْ عَلَيْنَا   کا مطلب ہے کہ اے اللہ! ہماری حفاظت فرما، ہمارا حصار فرما لے، اور ہماری نگرانی فرما، ہم پر اپنی ڈھیروں نعمتوں کے ذریعے فضل فرما، ہماری جانب سے ہر قسم کی ناگوار چیز کو دور کر دے۔

اسی طرح   عَائِذًا بِاللهِ مِنَ النَّارِ   یہ الفاظ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں، تو معنی یہ ہو گا کہ: میں یہ دعا اس حال میں مانگ رہا ہوں کہ میں جہنم سے اللہ تعالی کی پناہ اور حفاظت میں ہوں ۔"
دیکھیں: " شرح مسلم " ( 17 / 39 ، 40 )

3-۔ خولہ بنت حکیم سلمیہ کہتی ہیں کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:  (تم میں سے جو بھی کسی جگہ پڑاؤ کرے تو کہے:   أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ  یعنی: میں اللہ تعالی کی تخلیق کردہ ہر چیز کے شر سے اسی کے کامل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں ۔)
 تو کوئی بھی چیز اس وقت تک اسے تکلیف نہیں پہنچائے گی جب تک وہ وہاں سے کوچ نہیں کر جاتا۔" اس حدیث کو امام مسلم: (2708) نے روایت کیا ہے۔

4-۔ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی قوم سے خطرہ محسوس کرتے تو فرماتے:   اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ  یعنی: یا اللہ! ہم تیرا خوف دشمنوں کے دلوں میں بیٹھنے کی دعا کرتے ہیں، اور ان کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ اس حدیث کو ابو داود: (1537) نے روایت کیا ہے۔

نیز اس حدیث کو علامہ البانیؒ نے صحیح الجامع: (4706) میں صحیح قرار دیا ہے۔

علامہ الشیخ عظیم آبادی کہتے ہیں:
"عربی زبان میں کہا جاتا ہے: " جَعلتُ فلاناً فِي نحرِ العَدوِّ" یعنی مطلب یہ ہے کہ: میں نے فلاں کو اپنی طرف ے لڑنے کے لیے دشمن کے آمنے سامنے کر دیا ہے ، وہ اب میرے اور دشمن کے درمیان رکاوٹ ہے، تو یہاں نحر یعنی سینے کا ذکر اس لیے خاص طور پر کیا ہے لڑائی کے وقت دشمن کے سامنے سینہ ہی آتا ہے۔
تو مفہوم یہ ہوا کہ: یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ تو انہیں روک دے، ان کے شر کو ہم سے دور کر دے، ان کے بارے میں تو اکیلا ہی ہمیں کافی ہو جا، اور دشمن کے سامنے رکاوٹ بن جا۔" ختم شد
" عون المعبود " ( 4 / 277 )

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب