جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

دور حاضر ميں بدعتى كا بائيكاٹ كرنا

22872

تاریخ اشاعت : 11-03-2009

مشاہدات : 6433

سوال

بدعتى شخص سے كب بائيكاٹ كرنا مشروع ہے، اور اللہ كے ليے كسى سے كب بغض ركھا جائيگا، اور كيا اس دور ميں بائيكاٹ كرنا مشروع ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اور رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم پر درود و سلام كے بعد:

مومن شخص كو يہ بائيكاٹ ايمان و شريعت كى نظر سے ديكھنا چاہيے اور اس بائيكاٹ ميں كسى بھى قسم كى خواہش نہ پائى جائے، اس ليے اگر بدعتى شخص سے بائيكاٹ كرنے كے نتيجہ ميں زيادہ شر اور برائى پيدا نہ ہوتى ہو يہ بائيكاٹ حق اور صحيح ہو گا.

اس كى كم از كم حالت سنت ہو گى، اور اسى طرح اعلانيہ طور پر گناہ اور معاصى كے مرتكب شخص سے بائيكاٹ كرنا بھى كم از كم سنت كہلائيگا.

ليكن اگر اس سے بائيكاٹ نہ كرنے ميں زيادہ مصلحت اور بہتر ہو وہ اس طرح كہ اگر وہ يہ ديكھے كہ ان بدعتيوں كو دعوت دينے اور ان كى سنت كى طرف راہنمائى كرنا اور جو واجب ہے اس كى نشاندہى كرنے ميں وہ ان پر اثرانداز ہو سكتا ہے اور ان كى ہدايت ميں زيادتى كا باعث بن سكتا ہے تو اسے بائيكاٹ كرنے ميں جلدبازى سے كام نہيں لينا چاہيے.

ليكن وہ ان كے ساتھ اللہ كے ليے بالكل اسى طرح بغض ركھے جس طرح كفار كے ساتھ ہے، بلكہ كفار كے ساتھ اور بھى زيادہ بغض ہونا چاہيے؛ اور اس كے ساتھ ساتھ انہيں دين كى دعوت بھى دے، اور ان كى ہدايت كى حرص ركھتے ہوئے تمام شرعى دلائل پر عمل كرے.

اور پھر اگر بدعت غير مكفرہ ہے تو بدعتى سے بغض اس كى بدعت كے مطابق ہونا چاہيے، اور گنہگار اور معصيت كے مرتكب شخص سے بغض بھى اس كى معصيت و نافرمانى كے حساب سے ہو، اور اس كے اسلام اور ايمان كے مطابق اسى حساب سے محبت كرے، اس سے معلوم ہوا كہ بائيكاٹ ميں تفصيل پائى جاتى ہے.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

راجح اور بہتر و اولى يہى ہے كہ اس سلسلہ ميں شرعى مصلحت كو مدنظر ركھا جائےگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شرعى مصلحت كا خيال كرتے ہوئے كچھ لوگوں سے بائيكاٹ كيا اور كچھ لوگوں سے بائيكاٹ نہيں كيا.

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بغير عذر كے جنگ تبوك سے پيچھے رہنے كى بنا پر كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ اور ان كے دونوں ساتھيوں سے بائيكاٹ كيا؛ ان كے ساتھ پچاس راتوں تك بائيكاٹ رہا حتى كہ اللہ تعالى نے ان كى توبہ قبول فرمائى، ليكن آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے عبد اللہ بن ابى بن سلول اور اس كے ساتھ دوسرے منافقين كى جماعت كے ساتھ بائيكاٹ نہيں كيا كيونكہ اس كے كئى ايك شرعى اسباب تھے.

لہذا مومن كو زيادہ مصلحت كا خيال ركھنا چاہيے كہ مصلحت كسى ميں زيادہ پائى جاتى ہے، اور يہ چيز كافر اور بدعتى اور گنہگار كے ساتھ اللہ كے ليے بغض اور محبت كے منافى نہيں، اسے اس سلسلہ ميں مصحلت عامہ كو مدنظر ركھے، اگر مصلحت بائيكاٹ كا تقاضہ كرے تو بائيكاٹ كر لے، اور اگر شرعى مصلحت اسے دعوت دينے اور تبليغ كرنے اور بائيكاٹ نہ كرنے كى متقضاضى ہو تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طريقہ پر عمل كرتے ہوئے بائيكاٹ مت كرے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

ماخذ: مجموع فتاوى و ومقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 9 / 423 )