بدھ 19 جمادی اولی 1446 - 20 نومبر 2024
اردو

عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز تروایح کیلیے جمع کر کے اسے "بدعت "سے موسوم کیوں کیا؟

230276

تاریخ اشاعت : 21-05-2016

مشاہدات : 16038

سوال

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز تراویح کیلیے ایک امام کے پیچھے جمع فرمایا اور کہا: "یہ اچھی بدعت ہے"عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بدعت کیوں کہا؟ حالانکہ ہمیں خلفائے راشدین کے اقوال و افعال کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے جو کہ سنت کا ایک حصہ ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صحیح بخاری: (2010) میں عبد الرحمن بن عبد  جو کہ القاری کے نام سے مشہور تھے وہ کہتے ہیں کہ : "میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان میں مسجد کی جانب گیا تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ سب الگ الگ نوافل ادا کر رہے ہیں کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کہیں کسی کی اقتداء میں چند لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب لوگ ایک امام کے پیچھے نوافل ادا کریں، تو یہ بہتر ہوگا " اس کے بعد انہوں نے اس کام کو عملی جامہ پہنانے کا عزم کر لیا اور انہیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں یکجا فرما دیا، پھر چند دن کے بعد میں دوبارہ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد گیا تو لوگ اپنے ایک امام کے پیچھے نماز ادا کر رہے تھے تو اس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "یہ ایک اچھی بدعت ہے، تاہم جس وقت یہ لوگ سو جاتے ہیں اس وقت میں اگر نماز ادا کریں تو یہ افضل ہو گا" عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ رات کے آخری حصے میں نماز ادا کریں تو زیادہ افضل ہے لیکن لوگ رات کی ابتدا ءمیں قیام کرتے اور آخری وقت میں آرام کرتے تھے"

یہاں عمر رضی اللہ عنہ نے عربی زبان میں کہا ہے کہ: "یہ ایک اچھی بدعت ہے" بدعت کا لفظ بول کر لغوی معنی مراد لینا مقصود تھا ، یعنی یہ ایک ایسا کام ہے جو پہلے نہیں تھا اور لوگوں کو اس کی عادت نہیں تھی اور نہ ہی اس پر پابندی کرتے تھے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ماہ رمضان میں ہر رات کو ایک ہی شخص کی امامت میں پا بندی کے ساتھ تراویح ادا کرنے کے عادی نہیں تھے اور ایسا عہد فاروقی سے پہلے معمول کبھی نہیں رہا ، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے موجودہ کیفیت کو سامنے رکھ کر "بدعت" کا لغوی معنی مراد لیا، شرعی معنی عمر رضی اللہ عنہ کی مراد ہر گز نہیں تھا، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیں کہ دین میں نیا کام ایجاد کرنا عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود و مطلوب تھا ہی نہیں؛ کیونکہ  نماز تروایح شرعی عمل ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے، اسی طرح نماز تراویح کی جماعت بھی شرعی امر ہے اور اس کی ترغیب بھی موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی اور قولی سنت سے یہ ثابت ہے۔

اہل علم نے بالکل واضح لفظوں میں یہ بات لکھی ہے ، جیسے  شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عمر رضی اللہ عنہ کی جانب سے "بدعت" سے موسوم کرنے کا عمل لغوی معنی کو مد نظر رکھ کر عمل میں آیا، شرعی معنی اور مطلب مراد لینا مقصود نہیں تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ لغوی طور پر "بدعت" ہر اس عمل پر بولا جا سکتا ہے جو بغیر کسی عملی نمونے کے کیا جائے۔

جبکہ شرعی اعتبار سے بدعت اس چیز کے بارے میں بولا جاتا ہے جس کے بارے میں کوئی شرعی دلیل موجود نہ ہو، چنانچہ جب ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت کے ساتھ یہ بات ملے  کہ آپ کو یہ عمل اچھا لگتا تھا، یا آپ کی کسی حدیث سے آپ کی وفات کے بعد کسی عمل کے واجب ہونے کا ثبوت ملتا ہے، یا مطلق طور پر اس کام کے واجب ہونے کا ثبوت تو موجود تھا لیکن اس پر عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی کیا گیا جیسے کہ نوشتہِ صدقہ جو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا، اگرچہ اس پر عمل آپ کی وفات کے بعد کیا گیا ہے تو اسے بھی لغوی طور پر بدعت کہہ سکتے ہیں؛ کیونکہ اس پر عمل ہی اب شروع ہوا ہے۔

بالکل اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو بھی لغوی طور پر بدعت کہا جا سکتا ہے، جیسے کہ قریش کے سفیروں نے نجاشی کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا: "یہ لوگ اپنے آباء کے دین سے دستبردار ہو چکے ہیں اور عالی جاہ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے! بلکہ یہ نامعلوم اور نئے دین کے ماننے والے ہیں"

مزید برآں یہ بھی ہے کہ جس عمل کے بارے میں کتاب و سنت سے دلائل ملیں تو وہ شریعت میں بدعت نہیں ہوتا، اگرچہ اسے لغوی طور پر بدعت کہنا ممکن ہو، کیونکہ لغوی اعتبار سے لفظ "بدعت"  کا دائرہ شرعی دائرے سے وسیع ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (ہر بدعت گمراہی ہے)سے مراد ہر وہ عمل مراد نہیں ہے جو نیا ہو؛ کیونکہ دین اسلام سمیت ہر وہ دین جسے انبیاء لے کر آئے وہ اپنے زمانے کے اعتبار سے نیا ہی تھا، چنانچہ اس حدیث سے مطلب یہ ہے کہ ہر وہ عمل جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کا درجہ نہیں دیا اسے شریعت بنانا بدعت ہے۔

اگر [لفظ بدعت کے اطلاق  کا ]معاملہ ایسا ہی ہے تو  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے زمانے میں قیام رمضان با جماعت اور تنہا کیا کرتے تھے؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جمع ہونے پر تیسری یا چوتھی رات میں فرما دیا تھا کہ: (میں اس لیے گھر سے باہر نہیں آیا کہ مبادا تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے، اس لیے تم اپنے گھروں میں نوافل ادا کرو؛ کیونکہ مرد کی فرض کے علاوہ ہر نماز گھر میں افضل ہوتی ہے)

یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے باہر نہ نکلنے کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ کہیں تراویح تم پر فرض نہ ہو جائے، تو اس سے معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں تراویح کی جماعت نہ کروانے کا سبب موجود تھا ، لہذا اگر تراویح کی نماز فرض ہونے کا خوف لاحق نہ ہوتا تو آپ ضرور ان کی جماعت کرواتے رہتے۔

چنانچہ جس وقت عمر رضی اللہ عنہ کا عہد آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک ہی امام کے پیچھے جمع کر دیا، اور مسجد میں روشنی کا اہتمام کیا، اب یہ پوری کیفیت یعنی سب لوگ مسجد میں روشنی کے اندر ایک ہی امام کے پیچھے جمع ہوں  یہ ایک ایسا عمل تھا جس پر وہ اس سے پہلے عمل پیرا نہیں تھے؛ اس پوری کیفیت کو عمر رضی اللہ عنہ نے "بدعت" سے موسوم کیا؛ کیونکہ لغت میں ایسی صورت حال کو بدعت ہی کہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس سے مراد شرعی بدعت نہیں تھی؛ کیونکہ سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ باجماعت تراویح اچھا عمل ہے، اگر فرض ہونے کا خوف نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ضرور عمل پیرا ہوتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے فرض ہونے کا خدشہ باقی نہ رہا اس لیے با جماعت تراویح کیلیے کوئی رکاوٹ بھی باقی نہ رہی" انتہی
"اقتضاء الصراط المستقيم" (2/ 95-97)

ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سلف صالحین کی کچھ عبارتوں میں چند نئے امور یعنی بدعات کو اچھا قرار دیا گیا ہے ، یہ اصل میں ان لفظ "بدعت" کو لغوی طور پر استعمال کیا گیا ہے شرعی طور پر نہیں، مثال کے طور پر عمر رضی اللہ عنہ  نے جس وقت لوگوں کو قیام رمضان کیلیے ایک ہی امام کے پیچھے جمع کیا اور انہیں اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: "یہ اچھی بدعت ہے" یعنی اچھا انداز ہے، اسی واقعہ کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ اور الفاظ بھی منقول ہیں کہ: "اگر یہ بدعت ہے تو پھر یہ اچھی بدعت ہے"

یہاں عمر رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ تھا کہ "یہ عمل آج سے قبل ایسے نہیں ہوتا تھا "لیکن شریعت میں اس کام کے کرنے کے دلائل موجود تھے، ان دلائل میں سے کچھ یہ  ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کیلیے ترغیب دلایا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ کے زمانے میں لوگ اکیلے اور با جماعت ہر دو طریقے سے قیام کیا کرتے تھے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے صحابہ کرام کی ایک سے زائد راتوں میں امامت کروائی، اور پھر صرف اس وجہ سے رک گئے کہ کہیں ان پر فرض نہ ہو جائے اور صحابہ کرام اس پر عمل کرنے سے قاصر رہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسا ممکن نہیں رہا" انتہی
"جامع العلوم والحكم" (2/ 783)

اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی مراد لغوی تھی؛ کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک امام کی اقتدا میں اکٹھا کر دیا تھا حالانکہ وہ عہد نبوی اور عہد صدیقی میں اکیلے اکیلے ہی تراویح ادا کرتے تھے، چنانچہ عہد فاروقی میں انہیں ایک ہی امام کی اقتدا میں اکٹھا کر دیا گیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ جب ان کے پاس سے گزرے اور انہیں ایک ہی جماعت میں اکٹھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: "یہ ایک اچھی بدعت ہے" یعنی: با قاعدہ ایک امام کے پیچھے با جماعت نماز ادا کرنے کی یہ صورت اچھا انداز ہے۔

یہ صرف لغوی اعتبار سے تھا، عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقصود ہر گز نہیں تھا کہ یہ شرعی بدعت ہے، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسا تصور ہی ممکن نہیں ہے کہ آپ بدعت ایجاد کریں یا اسے باقی رکھیں" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (3/ 33)

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"عمر رضی اللہ عنہ نے : "یہ اچھی بدعت ہے" کہہ کر  بدعت کا شرعی معنی مراد نہیں لیا، شریعت میں بدعت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دین میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جائے جو اس سے پہلے موجود نہ ہو، بلکہ عمر رضی اللہ عنہ کا مطلوب و مقصود اس لفظ کا لغوی معنی ہے، اور لغوی طور پر بدعت کا لفظ ہر اس کام پر بولا جاتا ہے جو وقت ایجاد سے پہلے غیر معروف ہو، اور یہ بات یقینی ہے کہ نماز تراویح با جماعت ایک ہی امام کے پیچھے  ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے کچھ سالوں تک بالکل موجود نہیں تھی، تو یہ اس اعتبار سے نئی چیز تھی، لیکن اگر باجماعت نماز تراویح کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل کی جانب سے دیکھیں تو یہ سنت ہے، بدعت نہیں ہے، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے بدعت کو اچھا بھی صرف اسی لیے ہی کہا ہے" انتہی
"صلاة التراويح" (ص 50)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب