اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

عطیہ خون دینے کا حکم

2320

تاریخ اشاعت : 13-05-2004

مشاہدات : 23876

سوال

انتقال خون کا حکم کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس کاجواب دیتے ہوئے شیخ علامہ محمد بن ابراھیم آل شيخ رحمہ اللہ تعالی نے خصوصا یہ کہا کہ :

اس سوال کے جواب میں تین امور پرکلام کرنا ضروری ہے :

اول : انتقال خون کس شخص کے لیے ہورہا ہے ۔

دوم : خون دینے والا شخص کون ہے ۔

سوم : خون طلب کرنے میں کس شخص کی بات پراعتماد کیا جائےگا ۔

اول :

جسے خون دیا جارہا ہےیہ وہ شخص ہے جومرض کی وجہ سے یا زخمی ہونے کی وجہ سے موت وحیات کی کشمکش میں ہے اوراسے خون کی ضرورت ہے ، اس میں اصل اوردلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

تم پر مردہ اور( بہاہوا ) خون اورخنزیر کا گوشت اورہر وہ چيزجس پر اللہ تعالی کے علاوہ کسی اورکا نام پکارا گيا ہوحرام ہے ، پھر جومجبورہو جائے اوروہ حد سے تجاوز کرنے والا اورزيادتی کرنے والا نہ ہو اس پر ان کے کھانے میں کوئي حرج نہیں البقرۃ ( 173 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

( پس جو شخص شدت کی بھوک میں بے قرار ہوجائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف ان کا میلان نہ ہو تویقینا اللہ تعالی معاف کرنے والا مہربان ہے ) المائدۃ ( 3 ) ۔

اورایک آيت میں اللہ سبحانہ وتعالی نےاس طرح فرمایا :

حالانکہ اللہ تعالی نے ان سب جانوروں کی تفصیل بیان کردی ہےجن کو تم پر حرام کیا ہے ، مگر وہ بھی جب تم کوسخت ضرورت پڑ جائے توحلال ہے الانعام ( 119 ) ۔

اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس سے یہ علم ہوتا ہے کہ جب کسی مريض یا زخمی کی شفایابی متوقف ہوجائے یا کسی اورشخص کے انتقال خون سے اس کی زندگي بچائي جاسکتی ہووہ اس طرح کہ کوئي ایسی چيز ( غذا یا مباح ادویات ) نہ پائي جائے جواس کی شفایابی کے قائم مقام ہویا اس کی زندگی بچا سکے تواس حالت میں اسے خون لگانا جائز ہے ۔

اورحقیقت میں ایسا کرنا غذا دینے میں شمار ہوگا نہ کہ علاج اوردواء میں ( اورضرورت کے وقت حرام غذا کا استعمال کرنا بھی جائز ہے مثلا کسی مجبور اورلاچار کے لیے مردار کھانا ) ۔

دوم : جس سے خون منتقل کیا جائے : یعنی جس سے خون لیا جارہا ہے وہ شخص ہے جس پرکوئي ظاہری ضرر اورنقصان تومرتب نہيں ہوتا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( نہ توخود نقصان اٹھاؤ اورنہ ہی کسی دوسرے کو نقصان دو ) ۔

سوم : انتقال خون کے مطالبے میں مسلمان ڈاکٹر کی بات کوتسلیم کیا جائے گا ، اوراگر مسلمان ڈاکٹر ملنا مشکل ہوتو پھرغیر مسلم چاہے وہ یھودی ہویا عیسائي ( یا اس کے علاوہ کوئي اور ) پرہمیں اعتماد کرنے میں کوئي مانع نظر نہيں آتا لیکن شرط یہ ہے کہ اسے طب میں ماہر ہونا چاہیے اورلوگوں کے ہاں بھی وہ ڈاکٹر بھروسے والا اورثقہ ہو اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

صحیح بخاری میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنودیل کے ایک شخص کواجرت پر حاصل کیا جوکہ راستے کا ماہر تھا اوردین قريش پر ہی قائم تھا ، خریت اسے کہتےہیں جوراستے جانتا اورراہنمائي کا ماہرہو ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2104 ) ۔

دیکھیں : فتاوی الشیخ محمد بن ابراھیم ۔

اوراس موضوع میں کبارعلماء کرام کمیٹی کا ایک فتوی بھی ہے جسے ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں :

اول :

ضرورت کےوقت انسان اتنے خون کا عطیہ دے سکتا ہے جس سے اسے کوئي نقصان نہ ہو تا کہ مسلمان ضرورتمندکی جان بچائي جاسکے ۔

دوم :

اسلامی بلڈ بینک قائم کرنا جائز ہے جہاں پرلوگوں سے خون کے عطیات وصول کرکے محفوظ کیا جائے تا کہ بوقت ضرورت مسلمان لوگوں کی جان بچائي جاسکے ، لیکن شرط یہ ہے کہ بلڈ بینک مریضوں اوران کے اولیاء سے خون کی قیمت نہ وصول کریں ، اورنہ ہی اسے تجارت بنائيں کہ اس سے کمائي شروع کردیں ، کیونکہ اس میں عام مسلمانوں کی مصلحت اورفائدہ ہے ۔ .

ماخذ: مرجع : کتاب الاضطرار الی الاطعمۃ والادویۃ المحرمۃ للطریفی صفحہ نمبر ( 169 ) ۔