اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

ایک شخص ماہ رمضان میں مرتد ہو کر دوبارہ اسلام کی طرف لوٹ آیا ، اب اس کا کیا حکم ہے؟

233482

تاریخ اشاعت : 10-06-2016

مشاہدات : 6424

سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کے ساتھ لڑتے ہوئے -نعوذ باللہ-اللہ کو اور دین کو برا بھلا کہا، پھر جب اسے یہ یقین ہو گیا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو چکا ہے تو اس نے اپنی توبہ کا اعلان کر دیا، دوبارہ سے کلمہ شہادت پڑھا، اور اپنے کیے پر خوب پشیمان بھی ہوا، تو کیا اس کے اس عمل سے رمضان کا روزہ ٹوٹ گیا؟ اگر معاملہ ایسی ہے کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے تو کیا اس پر ایک دن کے روزے کا کفارہ ہوگا یا اسے دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہوں گے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

کسی بھی عبادت کے قبول اور درست ہونے کیلیے اسلام بنیادی ترین شرط ہے۔

اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
( قُلْ أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ [53]  وَمَا مَنَعَهُمْ أَن تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ)
ترجمہ: آپ انہیں کہہ دیں: تم خوشی سے خرچ کرو یا جبراً تمہارا صدقہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، بیشک تم فاسق قوم میں سے ہو [53] اور ان کے صدقات قبول ہونے سے رکاوٹ صرف یہی بات بنی ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا تھا۔[التوبہ :53 – 54]

تو اس آیت میں بالکل وضاحت کے ساتھ یہ چیز موجود ہے کہ عبادت کی قبولیت کیلیے  ایمان شرط ہے چنانچہ ایمان کے بغیر عبادت صحیح نہیں ہو سکتی۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
فرمانِ باری تعالی : " قُلْ أَنفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا " یعنی: تم جیسے تیسے بھی صدقات خرچ کرو ،  "لَّن يُتَقَبَّلَ مِنكُمْ إِنَّكُمْ كُنتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ" تم سے ہر گز انہیں قبول نہیں کیا جائے گا، بیشک کیونکہ تم فاسقوں میں سے ہو گئے ہو۔

پھر اللہ تعالی نے ان کے صدقات کی عدم قبولیت کا سبب بھی بیان فرمایا کہ: " إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ " انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اعمال ایمان کے بغیر قبول اور صحیح ہو ہی نہیں سکتے" انتہی
" تفسیر ابن کثیر" (4 / 162)

لہذا اگر کوئی شخص روزے کے دوران کفر کا ارتکاب کرتے ہوئے مرتد ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں اہل علم کے مابین اس بارے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ جو شخص دوران روزہ اسلام سے مرتد ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہو جائے گا، اور اگر وہ بعد میں دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اسے اس دن کے روزے کی قضا دینا ہوگی، چاہے وہ اسی دن مسلمان ہو یا اس دن کے گزرنے کے بعد، نیز اس شخص کے مرتد ہونے کا سبب کفریہ عقیدہ ہو ، یا ایسے شک کی بنا پر کافر ہو جس شک کی وجہ سے انسان کافر ہو جاتا ہے، یا کلمہ کفر زبان پر لے آئے ، چاہے وہ دین کا مذاق اڑاتے ہوئے کہے یا سنجیدہ انداز میں ؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ [65]  لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ )
ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیں تو وہ کہیں گے: ہم تو ہنسی مذاق  کر رہے تھے، آپ ان سے کہہ دیں: کیا اللہ ، رسول اللہ ، اور اس کی آیات سے تم مذاق کرتے ہو؟ [65] تم کوئی عذر پیش نہ کرو، تم ایمان کے بعد کفر کر چکے ہو۔[التوبہ :65 – 66] "انتہی
" المغنی " (4 / 369 – 370)

جبکہ کفارے میں بارے میں پہلے فتوی نمبر: (106476) میں گزر چکا ہے کہ  کفارہ صرف اس شخص پر لازم آتا ہے جس نے روزہ جماع کر کے توڑا ہو، جبکہ دیگر روزہ توڑنے والی اشیا کے ذریعے روزہ فاسد کرنے پر صرف اسی دن کی قضا واجب ہوتی ہے۔

چنانچہ اس بنا پر :

یہ شخص اپنے اسی دن کے روزے کی قضا دے گا جس دن کا روزہ اس نے باطل کیا، اور اس پر کفارہ نہیں ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب