سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اللہ تعالی کےفرمان " فاثرن بہ نقعا " کا معنی

23397

تاریخ اشاعت : 01-05-2003

مشاہدات : 7049

سوال

آیت کریمہ " فاثرن بہ نقعا " کا معنی کیا معنی ہے ؟
اور کیا یہ چارکلمات ( ارتفع ، غبار ، فی ، سحب ) اس آیت میں پاۓ جاتے ہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


1 - ارتفع ، اورغبار یعنی بلندہوااور غبار معنی کے اعتبارسے آیت میں پاۓ جاتے ہیں ، اور " فی " ( میں ) نہیں پایا جاتا مگراس پرمعنی دلالت کرتا ہے کیونکہ غباراوپرتو ھواء میں ہی اٹھتا ہے ، اور سحب کا لفظ نہ تولفظي اعتبارسے اور نہ ہی معنی کے اعتبارسے موجود ہے ۔

2 - قرآن مجیدمیں ارتفع کےبہت سے مرادفات پاۓ جاتے ہیں جن میں کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے :

ا - النشء ( پیدا کرنا اوربنانا )جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

وینشئ السحاب الثقال اوربھاری بادلوں کوپیدا کرتا ہے ۔ الرعد ( 12 )

اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

ان ناشئۃ اللیل ھی اشدوطئا واقوم قیلا بیشک رات کواٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائ مناسب اور بات کوبہت درست کردینے والا ہے ۔ المزمل ( 6 ) ۔

ب – الحدب : اللہ تعالی کا فرمان ہے :

من کل حدب ینسلون ہربلندی سے دوڑتے ہو‎ۓ آئيں گے الانبیاء ( 96 )

ت – العروج : اس کا معنی صعود اور اتفاع ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ جس کی طرف ایک دن میں فرشتے اور روح چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزارسال کی ہے ۔ المعارج ( 4 )

ث – الموج : پانی کا پانی سے اونچا ہوجانے کوموج کہا جاتا ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :

وھی تجری بھم فی موج کالجبال وہ کشتی انہیں پہاڑوں جیسی موجوں میں لیے جارہی تھی ۔ ھود ( 42 ) ۔

ج – الربوۃ : اونچی جگہ کو کہتے ہیں ۔

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :

وجعلنا ابن مریم وامہ آیۃ وآوینا ھما الی ربوۃ ذات قرارومعین ہم نے ابن مریم اوراس کی والدہ کوایک نشانی بنایا اوران دونوں کو بلند اور صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں پناہ دی ۔ المومنون ( 50 )

ح - النشز : اس کا معنی بھی ارتفاع ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

یاایھالذین آمنوا اذاقیل لکم تفسحوا فی المجالس فافسحوا یفسح اللہ لکم واذا قیل انشزوا فانشزوا اے مسلمانو ! جب تم سے کہا جاۓ کہ مجالس میں ذرا کشادگی پیدا کروتوتم جگہ کشادہ کردواللہ تمہیں کشادگی دے گا ، اور جب کہا جاۓ کہ اٹھ کھڑے ہوجاؤ تو تم اٹھ کھڑے ہوجاؤ ۔ المجادلۃ ( 11 ) ۔

خ – اور لفظ غبار " کی جگہ پر قرآن مجید میں کوئ اور لفظ استعمال ہوا ہے جوکہ اس کے معنی میں آتا ہے اوروہ " ھباء " ہے ۔

اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :

وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجعلناہ ھباء منثورا

اور انہوں نے جو عمل کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کرانہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا ۔ الفرقان ( 23 ) ۔

اور لفظ " السحاب " کے بھی قرآن کریم میں کئ ایک مترادف لفظ وارد ہیں ، ان میں کچھ یہ ہیں :

ا – المعصرات : اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وانزلنا من المعصرات ماء ثجاجا

اورہم نے بدلیوں سے بکثرت بہتا ہوا پانی برسایا ۔ النبا ( 14 ) ۔

ب – المزن : اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

اانتم انزلتموہ من المزن ام نحن المنزلون

کیا اسے تم نے بادلوں سے اتارا ہے یا کہ ہم برساتے ہیں ۔ الواقعۃ ( 69 ) ۔

3 - عمومی شکل میں انواع تفسیر کوشامل ہونے کے اعتبارسے اور عقیدہ کی سلامتی کے اعتبارسے سب سے بہتر اور افضل تفسیر دو ہیں : ایک تومتقدمین میں سے تفسیر طبری اور متاخرین میں سے تفسیر ابن کثیر ۔

طبری نے اس آیت فاثرن بہ نقعا کی تفسیر میں کہا ہے کہ :

اللہ تعالی کا فرمان فاثرن بہ نقعا اللہ تعالی ذکرکرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ ہم نے وادی میں غباراٹھا دیا ، اورالنقع غبار کو کہتے ہیں اور مٹی کوبھی نقع کہا جاتا ہے ۔

اور بہ میں ھا جگہ کے نام سے کنایہ ہے ، اسے ذکرنہیں کیابلکہ اس سے کنایہ کیا گيا ہے اس لیے کہ یہ معلوم ہے کہ غبار کسی جگہ سے ہی اٹھتا ہے تو اسے ذکر کرنے کی بجاۓ سامعین کی فھم پر رہنے دیا گیا ۔

اورجس طرح ہم نے کہا ہے اھل تاویل کا بھی قول اسی طرح ہے ۔ تفسیر طبری ( 30 / 275 - 276 ) ۔

اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیرمیں کہا ہے کہ :

فاثرن بہ نقعا یعنی گھوڑوں کے معرکے والی جگہ پر غبار ۔

تفسیر ابن کثیر ( 4 / 542 ) ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد