جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

کیا بیضہ کی مصنوعی بار آوری سے روزہ باطل ہو جائے گا؟

سوال

میری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک مجھے اولاد کی نعمت حاصل نہیں ہوئی، میں مصنوعی [بیضہ بار آوری یا]تخم ریزی کروانا چاہتی ہوں، میں بعض حالات کے پیش نظر جنین ایمپلانٹ کیلیے آپریشن رمضان میں دن کے وقت کروانا چاہتی ہوں، تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟ اور کیا مجھے اس دن کا کفارہ دینا ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مصنوعی تخم ریزی یا بیضہ بار آوری سے مراد یہ ہے کہ جماع کے بغیر نسوانی بیضہ کو مردانہ منی کے ذریعے بار آور کیا جائے۔

مصنوعی تخم ریزی بسا اوقات جسم کے اندر ہوتی ہے اور بسا اوقات جسم سے باہر۔

اندرونی مصنوعی تخم ریزی میں یہ ہوتا ہے کہ مرد کی منی لے کر عورت کے رحم میں مناسب جگہ تک پہنچائی جاتی ہے تا کہ مرد کی منی کے ذریعے عورت کا بیضہ طبعی طریقے کے ساتھ بار آور ہو جائے۔

اس کیلیے منی کے جرثوموں کو عورت کے رحم میں لمبی اور باریک سلاخ کے ذریعے رحم تک پہنچایا جاتا ہے۔

جبکہ بیرونی مصنوعی تخم ریزی [ٹیسٹ ٹیوب بے بی]میں یہ ہوتا ہے کہ مرد کا نطفہ اور عورت کا بیضہ لیکر انہیں میڈیکل ٹیسٹ کیلیے استعمال کی جانے والی ٹیوب میں مخصوص  شرائط کے ساتھ بار آور ہونے کیلیے رکھا جاتا ہے، پھر اسے بیوی کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے تا کہ دیوارِ رحم کے ساتھ چمٹ جائے اور عام جنین کی طرح نشو و نما پائے۔

مصنوعی تخم ریزی یا بار آوری کے بارے میں متعدد فتاوی پہلے گزر چکے ہیں، اس کیلیے آپ سوال نمبر: (3474) کا مطالعہ کریں۔

روزے پر ان تمام مراحل  کے اثرات جاننے کیلیے پہلے ضروری احکامات جاننا ضروری ہے:

1- مرد کا نطفہ مشت زنی کے ذریعے رمضان میں دن کے وقت لیا جائے تو  اس سے جمہور اہل علم کے مطابق روزہ ٹوٹ جائے گا۔

اس لیے مرد رمضان میں دن کے وقت ایسا کرنے سے باز رہے۔

مزید کیلیے سوال نمبر: (222234) کا جواب ملاحظہ کریں۔

2- بیرونی بیضہ بار آوری کیلیے عورت کا بیضہ حاصل کرنا، روزہ توڑنے کا باعث نہیں ہے؛ کیونکہ  عام طور پر یہ عمل پیٹ یا شرمگاہ کے راستے سے مخصوص دور بین ڈال کر مکمل ہوتا ہے، اس میں چوسنے کی صلاحیت باریک نالی  کو ناف اور زیریں ناف والے حصے سے داخل کر کے بیضہ کو باہر نکالا جاتا ہے، یا پھر الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے یہ عمل مکمل ہوتا ہے۔

ہر دو صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

3- عورت کی شرمگاہ میں باریک نالی کے ذریعے مرد کی منی داخل کرنے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا؛ کیونکہ منی داخل کرنا بھی حقیقی یا معنوی کسی بھی اعتبار سے کھانے پینے میں نہیں آتا۔

جدید طبی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ عورت کی شرمگاہ کا نظام انہضام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونے والی چیز روزہ ٹوٹنے کا باعث نہیں ہو گی۔

بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عورت کا روزہ  ٹوٹے گا جب مرد کا عضو خاص اس کی شرمگاہ میں داخل ہو؛ کیونکہ یہ جماع کہلاتا ہے،اس وجہ سے  نہیں کہ عورت کے اندرونی حصہ میں کوئی شے داخل ہوئی ہے، بلکہ شریعت نے جماع کو روزہ ٹوٹنے کا سبب اس لیے بنایا   ہے کہ اس سے انزال ہونے کا خدشہ ہے، لہذا جماع کو انزال کا حکم دے دیا گیا ہے" انتہی
"شرح منتهى الإرادات" (2/364)

اسلامی فقہ اکیڈمی کی جانب سے بھی انہی باتوں کو معتمد قرار دیا گیا ہے کہ اندام نہانی میں داخل ہونے والی چیزوں کو روزہ ٹوٹنے کا باعث نہیں سمجھا جائے گا، اسلامی فقہ اکیڈمی کی قرار دادوں میں ہے کہ:
"درج ذیل امور سے روزہ نہیں ٹوٹتا:
اندام نہانی میں داخل کیلیے جانے والے شافہ][Suppositorium، صفائی کیلیے استعمال ہونے والا مواد، اندام نہانی کیلیے مخصوص خورد بین یا طبی تشخیص کیلیے انگلی داخل کرنا، کڑے اور چھلے وغیرہ ۔
مرد و خواتین کے پیشاب کی نالی میں داخل کی جانے والی اشیا ، مثلاً: انتہائی باریک پائپ، یا خورد بین، ایکسرے لینے کیلیے معاون مخصوص سیال مادہ، دوا، یا مثانہ کی صفائی کیلیے استعمال ہونے والا محلول " انتہی
"قرارات مجمع الفقه الإسلامي " (ص: 312)

اسی طرح مذکورہ انداز سے منی داخل کرنے کو جماع نہیں کہا جاتا؛ یہی وجہ ہے کہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر عورت کی اگلی یا پچھلی شرمگاہ میں منی جماع کے بغیر داخل کی گئی تو اس پر غسل لازم نہیں ہو گا" انتہی
"روضة الطالبين" (1/85)

اسی طرح نفراوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر منی عورت کی اگلی شرمگاہ میں داخل ہو لیکن عورت کی اپنی منی خارج نہ ہو تو اس  صورت میں اس پر غسل واجب نہیں ہو گا" انتہی
"الفواكہ الدوانی" (1/117)

اس بارے میں مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (141858) کا مطالعہ کریں۔

اس بنا پر بیضہ کو اندرونی یا بیرونی مصنوعی طریقے سے بار آور کروانے ، یا رحم میں جنین کی پیوند کاری سے عورت کا روزہ فاسد نہیں ہوتا۔

تاہم افضل یہی ہے کہ یہ کام  جس قدر ہو سکے رمضان میں دن کے وقت نہ کروایا جائے، تا کہ خاتون کا روزہ شکوک و شبہات سے پاک اور صحیح رہے۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: ( 49727) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب