ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

ان کے ملک میں وقت سے پہلے فجر کی نماز ادا کر دی جاتی ہے تو وہ کیا کریں؟

سوال

ہمیں دلائل اور مشاہداتی اعتبار سے کامل یقین ہے کہ ہمارے ملک میں نمازوں کے کیلنڈر میں سنگین غلطی ہے، ان غلطیوں میں خطرناک ترین غلطی یہ ہے کہ نماز فجر کی اذان فجر صادق سے ہٹ کر دیتے ہیں یعنی نماز کا وقت شروع ہونے سے بھی آدھا گھنٹہ پہلے، تو ہم فجر کی جماعت کے ساتھ نفل کی نیت سے نماز ادا کرتے ہیں پھر اذان ، سنتیں اور نماز فجر گھروں میں جا کر یا مسجد سے باہر دوبارہ سے ادا کرتے ہیں۔۔۔ اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ :
1- کیا ہمارا طریقہ کار صحیح ہے؟
2- کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : (امکان ہے کہ تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو نماز کے وقت سے ہٹ کر نماز ادا کریں گے، چنانچہ جب تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو تم اپنے گھروں میں معروف وقت کے مطابق نماز ادا کرو اور پھر ان کے ساتھ بھی نماز پڑھو اور اسے نفل بنا لو)ہم نے اس حدیث سے یہ سمجھا ہے کہ نماز با جماعت ادا کریں تا کہ فتنے سے بچ جائیں اور پھر دوبارہ الگ سے نماز پڑھ لیں۔
3- کیا کوئی ایسا عالم دین ہے جنہوں نے کہا ہوکہ "جب آپ کسی امام کے ساتھ نماز ادا کریں اور وہ امام یہ سمجھتا ہو کہ نماز کا شرعی وقت شروع ہو چکا ہے تو آپ کی اس امام کے ساتھ نماز صحیح ہے۔" چاہے آپ کے پاس ایسے دلائل موجود ہوں جو امام مسجد کی رائے کے مخالف ہوں۔
4- نماز فجر کے وقت سے متعلق فیصلہ کن بات کیا ہے؟ کہ نماز کا وقت اندھیرا چھا جانے پر ہوتا ہے یا روشنی ہونے پر یا عارضی سرخی ہونے پر ۔۔۔ یا کوئی اور علامت ہے؟
5- اپنی حالت ہم نے آپ کو بیان کر دی ہے اس لیے آپ ہماری رہنمائی فرمائیں اور ہمیں اس بارے میں مفید امور سے آگاہ کریں۔
میں اللہ تعالی سے امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو جلد از جلد ہمارے ان سوالات کے جوابات دینے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالی سے ہی ہم مدد کے طلب گار ہیں۔ اللہ تعالی آپ کو کامیاب فرمائے اور آپ کی کاوشوں کو برکتوں سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

میں نے یہ سوال اپنے شیخ محترم عبد الرحمن بن براک حفظہ اللہ کے سامنے رکھا تو انہوں نے فرمایا: "اگر ان کی ذکر کردہ بات صحیح ہے کہ نماز فجر کو وقت سے پہلے ادا کیا جاتا ہے تو اس پر انہوں نے قیاس کرتے ہوئے جو طریقہ اپنایا  وہ درست ہے، اس لیے وہ  لوگوں کے ساتھ با جماعت نماز ادا کریں اور پھر نماز کو وقت پر بھی ادا کریں، لیکن اگر یہ بات یقینی نہیں ہے بلکہ محض بد گمانی اور کسی کی بات پر اعتماد کرتے ہوئے کر رہے ہیں ، ان کے پاس اس بارے میں یقینی امر نہیں ہے تو وہ صرف با جماعت نماز ہی ادا کریں" انتہی

اس کے ساتھ آپ کیلیے نصیحت ہے کہ آپ اہل علم اور معتبر و معتمد لوگوں کی ٹیم بنا کر انہیں نماز فجر کا وقت جاننے کی ذمہ داری سپرد کریں اور پھر لوگوں کو بیان بھی کریں، نیز اگر موجودہ حالت واقعی درست نہیں ہے تو پھر اس کی اصلاح کیلیے بھی کوشش کریں۔

مزید فائدے کیلیے آپ سوال نمبر: (93160) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 404 - 411 )

متعلقہ جوابات