جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

مرد کا اپنی مطلقہ بیوی سے خط وکتابت کے ذریعہ دل لگی کرنا

23463

تاریخ اشاعت : 23-03-2004

مشاہدات : 7469

سوال

کیا مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ دوسری شادی کرنے کے بعد اپنی سابقہ بیوی کومحبت نامے لکھے یا اسے محبت کے انداز میں مخاطب کرے ؟
اورکیا اس کے لائق ہے کہ وہ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ رہائش پزیرکمرے میں سابقہ بیوی کے کارڈ اوراس کی تصویریں رکھے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اول :

خاوند سے طلاق حاصل کرنے کے بعد عورت اجنبی ہو جاتی ہے ، اس لیے اس کے حلال نہیں کہ وہ اس سے خط وکتابت کرے یا پھراسے مخاطب اوراس سے خلوت اورمصافحہ کرتا پھرے ، عورت یا پھر مرد کی طرف سے یہ فعل فحاشی کی جانب لے جانا والا ہے اورپھر اصلا ایسا فعل تو ان پر حرام بھی ہے ۔

1 - شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

کسی بھی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اجنبی عورت سے خط و کتابت کرے ، اس لیے کہ اس میں فتنہ ہے ، اور ہوسکتا ہے کہ خط وکتابت کرنے والا یہ سوچے کہ اس میں کوئي فتنہ نہيں ، لیکن شیطان ہر وقت اس سے چمٹا رہے گا اوردونوں کو ایک دوسرے کی رغبت دلاۓ گا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے کہ جو بھی دجال کے متعلق سنے وہ اس سے دور ہی رہے ، اوربتایا کہ ایک شخص اس کے پاس ایمان کی حالت میں آۓ گا ، لیکن دجال اس کے ساتھ رہے گا حتی کہ اسے فتنہ میں ڈال دے گا ۔

تونوجوانوں کا نوجوان لڑکیوں سے خط و کتابت کرنے میں ایک عظیم فتنہ اوربہت بڑا خطرہ ہے ، اس سے دوررہنا واجب اورضروری ہے ، اگرچہ سائل کا کہنا ہے کہ اس میں کوئي کسی قسم کی محبت اورعشق نہیں ۔ دیکھیں فتاوی المراۃ المسلۃ ( 2 / 578 ) ۔

2 – شیخ عبداللہ بن جبرین سے اجنبی عورت سے خط وکتابت کے بارہ میں سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا :

ایسا کرنا جائز نہیں ، کیونکہ یہ دونوں کے درمیان شہوت پیدا کرتا ہے اورملاقات وغیرہ کی خواہش پیدا کرتا ہے ، اس محبت ناموں اورخط وکتابت سے بہت فتنہ پیدا ہوتا اوردل میں زنا کی محبت پیدا ہوتی ہے ، جس سے فحاشی کا وقوع ہوتا ہے یا پھر فحاشی کا سبب بنتا ہے ۔

اس لیے ہم ہر اس شخص کونصیحت کرتے ہیں جواپنے نفس کی مصلحت چاہتا ہے کہ وہ اس خط وکتابت سے رک جاۓ تا کہ اس کادین اورعزت دونوں محفوظ رہیں ۔

اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ، دیکھیں فتاوی المراۃ المسلۃ ( 2 / 578 - 579 ) ۔

دوم :

نہ تو خاوند اور نہ ہی بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ طلاق کی عدت گزرنے کے بعد ایک دوسرے کی تصاویر سنبھال کررکھیں ، اس لیے کہ وہ ایک دوسرے سے اجنبی ہوچکے ہیں ، اوراللہ تعالی نےہر ایک کے لیے اجبنی کودیکھنا حرام کیا ہے فرمان باری تعالی ہے :

مومن مردوں سے کہہ دیجیۓ کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زيادہ پاکیزہ ہے یقینا اللہ تعالی جوکچھ وہ کرتے ہیں اس سے با خبر ہے ، اورمومن عورتوں سے بھی کہہ دیجیۓ کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں النور ( 30 / 31 ) ۔

اورپھرنئي بیوی کے بیڈ روم میں مطلقلہ بیوی کی تصاویر رکھنا حسن معاشرت کے بھی خلاف ہے اورپہلی بیوی کے خلاف غیرت اورحسد وکینہ اوربغض پیدا کرنے والی چيز ہے ، اورخاوند کے خلاف حسرت و غضب پیدا کرے گی ۔

اس لیے مطلقہ بیوی کے ساتھ نہ توخط وکتابت ہی جائز ہے اورنہ ہی اس کی تصاویرہی رکھنا جائز ہے ۔

اوراگریہ تیسری طلاق نہیں جس کے بعد خاوند بیوی سے رجوع نہيں کرسکتا حتی کہ وہ کسی اورخاوند سے شادی نہ کرلے ۔

اورطلاق دینے والا یہ دیکھے کہ طلاق کے اسباب ختم ہوچکے اوروہ دونوں خاوند اوربیوی اللہ تعالی کی حدود احسن انداز سے قائم رکھ سکتے اورحسن معاشرت سے رہ سکتے ہیں تواس حالت میں نۓ نکاح کے ساتھ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے تا کہ وہ دوبارہ اس کی بیوی بن جاۓ اورخاص کر جب ان کی اولاد بھی ہواور والدین کی علیحدگی ان پر اثرانداز ہونے کا خدشہ ہو تووہ شادی کرسکتا ہے ۔

اوردوسری شادی اس کےلیے اپنی مطلقہ ( طلاق رجعی ) سے شادی کرنے میں رکاوٹ نہيں بن سکتی جب وہ ان دونوں کورکھنے کی استطاعت رکھتا ہواورکفالت کرسکتا ہے تو جائزہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب